کیا امریکہ نے ایران کے ایٹمی ہتھیار کو کامیابی سے تباہ کر دیا ہے؟

ایران کے ایٹمی ہتھیار b2 bomber

کافی لوگ آج یہ سوال کر رہے ہیں: کیا امریکہ نے ایران کا جوہری پروگرام واقعی مکمل تباہ کر دیا ہے؟ تو بطور ایک پی ایچ ڈی فزکس اور سائنس کا طلب علم، مجھے لگا کہ یہ بات سادہ اور عام فہم انداز میں سب کو

کیا امریکہ نے ایران کے ایٹمی ہتھیار کو کامیابی سے تباہ کر دیا ہے؟
ایران کے ایٹمی ہتھیار
سمجھانی چاہیے۔ دیکھیں… نیوکلیئر پروگرام کوئی چھوٹا موٹا پروجیکٹ نہیں ہوتا، یہ کوئی لیب کا کمرہ نہیں، اور نہ ہی کوئی بریف کیس ہے کہ خطرہ محسوس ہو تو اٹھا کر کہیں اور رکھ دیا جائے۔ یہ ایک پورا سسٹم ہوتا ہے۔ ہزاروں سینٹری فیوجز، میلوں لمبی پائپنگ، حساس درجہ حرارت اور دباؤ پر چلنے والے کنٹرول سسٹم، خاص قسم کی بجلی کی فراہمی، اور ایک ایسا ماحول جو عام فیکٹری میں نہیں بنایا جا سکتا۔

امریکہ نے جن جگہوں پر حملہ کیا، جیسے نطنز اور فردو، وہ عام عمارتیں نہیں تھیں، بلکہ ایسی تنصیبات تھیں جہاں ایران یورینیم کو طاقتور بناتا ہے۔ یہ مراکز زمین کے اندر، پہاڑوں کے نیچے، سخت چٹانوں میں چھپائے گئے تھے تاکہ کسی حملے کی صورت میں بھی آسانی سے تباہ نہ ہو سکیں۔ لوگ کہتے ہیں، “امریکہ نے بنکر بسٹر بم پھینکے ہیں، جو زمین کے اندر 50-60 میٹر تک جا کے دھماکہ کر سکتے ہیں!” ہاں، ایسی ٹیکنالوجی ہے، لیکن ایک یا دو بم پوری تنصیب کو تباہ نہیں کر سکتے خاص طور پر جب وہ جگہ پہلے سے حفاظتی لحاظ سے مضبوط بنائی گئی ہو۔ سیٹلائٹ کی تصویریں اور عالمی رپورٹس بھی یہی بتا رہی ہیں کہ صرف اوپر کی عمارتیں متاثر ہوئیں، اصل مشینری، جو زمین کے اندر ہے، وہ ابھی بھی اپنی جگہ پر موجود ہے۔ اور رہی بات ریڈیایشن یعنی طابکاری کی؟ تو بھائی، جب وہاں کوئی ایکٹیو جوہری ری ایکٹر ہی نہیں تھا، نہ کوئی فیول راڈز، نہ کوئی زنجیری تعامل تو تابکاری (ریڈیایشن) کہاں سے پھیلتی؟ تو کیا ایران کا نیوکلیئر پروگرام ختم ہو گیا؟ نہیں۔ نہ ختم ہوا ہے، نہ اتنی آسانی سے ختم ہو گا۔ ایران کے پاس ابھی بھی: یورینیم ہے، سینٹری فیوجز ہیں، سائنس دان موجود ہیں، سسٹم کا ڈیزائن ہے، اور سب سے بڑھ کر عزم اور وقت ہے۔ اور یہ پانچ چیزیں کافی ہوتی ہیں کسی بھی نیوکلیئر پروگرام کو دوبارہ کھڑا کرنے کے لیے۔

اگر ایران کے کسی ایٹمی پلانٹ کو مکمل طور پر تباہ کر دیا جائے، تو اس کے اثرات صرف ایران تک محدود نہیں رہیں گے۔ دھماکے کی شدت، ہوا کی سمت اور موسم کے لحاظ سے تابکاری کے اثرات عراق، افغانستان، پاکستان، خلیجی ممالک (سعودی عرب، کویت، بحرین، قطر، یو اے ای)، ترکی اور وسطی ایشیائی ممالک (جیسے ترکمانستان، ازبکستان) تک پہنچ سکتے ہیں۔ فضا میں موجود تابکار ذرات ہزاروں کلومیٹر دور تک بھی جا سکتے ہیں، اور اگر تابکاری پانی میں شامل ہو جائے تو سمندر کے راستے اس کا دائرہ اور بھی وسیع ہو سکتا ہے۔ چرنوبل اور فوکوشیما جیسے واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ ایٹمی تباہی صرف ایک قوم یا ایک سرحد تک محدود نہیں رہتی بلکہ یہ پوری دنیا کے لیے خطرہ بن جاتی ہے۔ اس لیے جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ “سب کچھ ختم ہو گیا” تو ان سے بس اتنا کہنا ہے: یہ فلم نہیں، یہ نیو کلئیر فزکس ہے۔ زیادہ سے زیادہ شئیر کریں تاکہ عام عوام کو بھی سادہ الفاظ میں یہ بات سمجھ آ جائے۔ تحریر ڈاکٹر ملک کاشف مسعود

ایران کے ایٹمی ہتھیار
کیا امریکہ نے ایران کے ایٹمی ہتھیار کو کامیابی سے تباہ کر دیا ہے؟

امریکہ نے جن جگہوں پر حملہ کیا، جیسے نطنز اور فردو، وہ عام عمارتیں نہیں تھیں، بلکہ ایسی تنصیبات تھیں جہاں ایران یورینیم کو طاقتور بناتا ہے۔ یہ مراکز زمین کے اندر، پہاڑوں کے نیچے، سخت چٹانوں میں چھپائے گئے تھے تاکہ کسی حملے کی صورت میں بھی آسانی سے تباہ نہ ہو سکیں۔ لوگ کہتے ہیں، “امریکہ نے بنکر بسٹر بم پھینکے ہیں، جو زمین کے اندر 50-60 میٹر تک جا کے دھماکہ کر سکتے ہیں!” ہاں، ایسی ٹیکنالوجی ہے، لیکن ایک یا دو بم پوری تنصیب کو تباہ نہیں کر سکتے خاص طور پر جب وہ جگہ پہلے سے حفاظتی لحاظ سے مضبوط بنائی گئی ہو۔ سیٹلائٹ کی تصویریں اور عالمی رپورٹس بھی یہی بتا رہی ہیں کہ صرف اوپر کی عمارتیں متاثر ہوئیں، اصل مشینری، جو زمین کے اندر ہے، وہ ابھی بھی اپنی جگہ پر موجود ہے۔ اور رہی بات ریڈیایشن یعنی طابکاری کی؟ تو بھائی، جب وہاں کوئی ایکٹیو جوہری ری ایکٹر ہی نہیں تھا، نہ کوئی فیول راڈز، نہ کوئی زنجیری تعامل تو تابکاری (ریڈیایشن) کہاں سے پھیلتی؟ تو کیا ایران کا نیوکلیئر پروگرام ختم ہو گیا؟ نہیں۔ نہ ختم ہوا ہے، نہ اتنی آسانی سے ختم ہو گا۔ ایران کے پاس ابھی بھی: یورینیم ہے، سینٹری فیوجز ہیں، سائنس دان موجود ہیں، سسٹم کا ڈیزائن ہے، اور سب سے بڑھ کر عزم اور وقت ہے۔ اور یہ پانچ چیزیں کافی ہوتی ہیں کسی بھی نیوکلیئر پروگرام کو دوبارہ کھڑا کرنے کے لیے۔

کیا امریکہ نے ایران کے ایٹمی ہتھیار کو کامیابی سے تباہ کر دیا ہے؟

اگر ایران کے کسی ایٹمی پلانٹ کو مکمل طور پر تباہ کر دیا جائے، تو اس کے اثرات صرف ایران تک محدود نہیں رہیں گے۔ دھماکے کی شدت، ہوا کی سمت اور موسم کے لحاظ سے تابکاری کے اثرات عراق، افغانستان، پاکستان، خلیجی ممالک (سعودی عرب، کویت، بحرین، قطر، یو اے ای)، ترکی اور وسطی ایشیائی ممالک (جیسے ترکمانستان، ازبکستان) تک پہنچ سکتے ہیں۔ فضا میں موجود تابکار ذرات ہزاروں کلومیٹر دور تک بھی جا سکتے ہیں، اور اگر تابکاری پانی میں شامل ہو جائے تو سمندر کے راستے اس کا دائرہ اور بھی وسیع ہو سکتا ہے۔ چرنوبل اور فوکوشیما جیسے واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ ایٹمی تباہی صرف ایک قوم یا ایک سرحد تک محدود نہیں رہتی بلکہ یہ پوری دنیا کے لیے خطرہ بن جاتی ہے۔ اس لیے جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ “سب کچھ ختم ہو گیا” تو ان سے بس اتنا کہنا ہے: یہ فلم نہیں، یہ نیو کلئیر فزکس ہے۔ زیادہ سے زیادہ شئیر کریں تاکہ عام عوام کو بھی سادہ الفاظ میں یہ بات سمجھ آ جائے۔ تحریر ڈاکٹر ملک کاشف مسعود

کیا امریکہ نے ایران کے ایٹمی ہتھیار کو کامیابی سے تباہ کر دیا ہے؟

اسرائیلی میڈیا: اسلامی جمہوریہ کے ایٹمی پروگرام کا ایک ایجنٹ تہران میں ڈرون حملے میں مارا گیا۔

اسرائیلی میڈیا: اسلامی جمہوریہ کے ایٹمی پروگرام کا ایک ایجنٹ تہران میں ڈرون حملے میں مارا گیا۔

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں اسلامی جمہوریہ کے وزیر خارجہ نے ایران کی ایٹمی تنصیبات پر اسرائیل کے حملے کو جنگی جرم قرار دیا اور کہا کہ اسلامی جمہوریہ کو سفارتی عمل کے درمیان نشانہ بنایا گیا۔
اسرائیلی میڈیا: اسلامی جمہوریہ کے ایٹمی پروگرام کا ایک ایجنٹ تہران میں ڈرون حملے میں مارا گیا۔

**تاریخ:** 29 اکتوبر 2024 (نوٹ: یہ واقعہ اپریل 2024 میں پیش آیا)

**تعارف:** تہران میں حالیہ ڈرون حملے کے نتیجے میں ایک ایرانی انجینئر مہدی ہوشیارنیزاد کی موت واقع ہوئی ہے، جس سے اس کے کردار اور واقعے کی نوعیت کے بارے میں متضاد داستانیں جنم لے رہی ہیں۔ جب کہ ایران کے سرکاری میڈیا نے ایک صنعتی حادثے کی اطلاع دی، مغربی اور اسرائیلی ذرائع نے الزام لگایا کہ وہ ایران کے جوہری پروگرام میں ایک اہم شخصیت تھا جسے ایک قاتلانہ کارروائی کا نشانہ بنایا گیا۔

**واقعہ:**
6 اپریل 2024 کو تہران کے مشرقی شہریار ضلع میں ایک چھوٹے ڈرون نے ایک عمارت کو نشانہ بنایا۔ ایرانی سرکاری میڈیا بشمول سرکاری IRNA نیوز ایجنسی نے مہدی ہوشیارنیزاد کی موت کی تصدیق کی ہے، جس کی شناخت ایرانی وزارت دفاع کے لیے کام کرنے والے انجینئر کے طور پر کی گئی ہے۔ ابتدائی ایرانی رپورٹس میں اس واقعہ کو ایک **”صنعتی حادثہ”** قرار دیا گیا ہے جو وزارت سے وابستہ ایک تحقیقی مرکز میں کواڈ کاپٹر ڈرون سسٹم کے ٹیسٹ کے دوران پیش آیا۔

**الزام:**
ایران کے سرکاری اکاؤنٹ کے برعکس، متعدد مغربی اور اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے انٹیلی جنس ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا کہ حوثی نژاد کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا۔ **نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ، اور دی ٹائمز آف لندن نے نامعلوم امریکی اور اسرائیلی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے اطلاع دی ہے کہ یہ حملہ ایک اسرائیلی آپریشن تھا۔** ان ذرائع نے الزام لگایا کہ ہوشیارنیجاد محض ایک دفاعی انجینئر نہیں تھا بلکہ **ایران کے جوہری پروگرام میں ملوث ایک اہم شخصیت تھا**، خاص طور پر بغیر پائلٹ کی فضائی گاڑیوں کی تیاری سے منسلک تھا۔ انوویشن اینڈ ریسرچ (SPND)، ایران کے ماضی کے جوہری ہتھیاروں کی تحقیق میں اس کے کردار کے لیے امریکہ کی طرف سے منظور شدہ ادارہ۔

*** ماخذ:** “دی نیویارک ٹائمز نے 19 اپریل 2024 کو ‘تین سینئر اسرائیلی عہدیداروں’ کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا کہ اسرائیل نے یہ حملہ کیا تھا اور ہوشیارنیزاد ایران کے جوہری پروگرام کے اندر ‘خفیہ منصوبے کا انچارج’ تھا جس میں کواڈ کاپٹروں کی تیاری شامل تھی۔” (NYT: [ایران کا کہنا ہے کہ ڈرون حملے میں انجینئر مارا گیا، لیکن اسرائیل اسے جوہری کام قرار دیتا ہے](https://www.nytimes.com/2024/04/19/world/middleeast/iran-israel-drone-strike-nuclear.html))
* **ماخذ:** “واشنگٹن پوسٹ نے اسی طرح 19 اپریل کو ‘امریکی اور اسرائیلی حکام’ کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا کہ اسرائیل نے یہ حملہ کیا تھا اور یہ کہ ہدف ‘ایران کے جوہری پروگرام کی ایک اہم شخصیت تھی۔’ کہنا](https://www.washingtonpost.com/national-security/2024/04/19/israel-iran-nuclear-strike/))
* **ذریعہ:** “دی ٹائمز آف لندن نے بھی اسرائیلی دعوے کی خبر دی، جس میں ہوشیارنیجاد کو ایس پی این ڈی سے جوڑا گیا۔” (دی ٹائمز: [اسرائیل نے اعلیٰ ایرانی جوہری سائنسدان کو ڈرون حملے میں ہلاک کر دیا]

**ایران کا جواب:**
ایرانی حکام نے جوہری پروگرام سے مبینہ تعلق کی سختی سے تردید کی۔ وزارتِ دفاع نے ایک بیان جاری کیا جس میں ہوشیارنیزاد کو “دفاعی صنعت کے ماہر” کے طور پر سوگ کیا گیا اور اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ یہ واقعہ دفاعی نظام پر معمول کی تحقیق اور ترقی کی سرگرمیوں کے دوران ایک حادثہ تھا۔ انہوں نے مغربی/اسرائیلی رپورٹس کو “بے بنیاد الزامات” اور ایران کے خلاف “نفسیاتی جنگ” کا حصہ قرار دے کر مسترد کر دیا۔

**مہدی ہوشیارنیزاد کون تھا؟**
Hoshiarnejad کے بارے میں عوامی معلومات محدود ہیں۔ ایران کے سرکاری میڈیا نے انہیں دفاعی انجینئر بتایا۔ انٹیلی جنس تشخیص پر مبنی مغربی رپورٹس نے انہیں SPND کے اندر ایک سینئر شخصیت کے طور پر پیش کیا، جس میں جدید ڈرون ٹیکنالوجی کی ترقی پر توجہ مرکوز کی گئی، ممکنہ طور پر جوہری سلامتی یا ترسیل کے نظام سے متعلق ایپلی کیشنز کے لیے۔ جوہری سے متعلق کسی بھی پروجیکٹ میں اس کا صحیح کردار IAEA جیسے بین الاقوامی اداروں کے ذریعہ عوامی طور پر غیر مصدقہ ہے۔

**سیاق و سباق:**
یہ واقعہ ایک دیرینہ نمونہ کے مطابق ہے:
1. **شیڈو وار:** اسرائیل اور ایران برسوں سے ایک خفیہ تنازعہ میں مصروف ہیں، جس میں سائبر حملے، قتل اور تخریب کاری شامل ہے، جو اکثر ایران کے جوہری اور میزائل پروگراموں کو نشانہ بناتے ہیں۔
2. **ایٹمی سائنسدانوں کا قتل:** گزشتہ دہائی کے دوران متعدد ایرانی جوہری سائنسدانوں کو قتل کیا گیا ہے (مثلاً، 2020 میں محسن فخر زادہ)، جس کا بڑے پیمانے پر اسرائیل کو ذمہ دار سمجھا جاتا ہے، حالانکہ وہ اس طرح کی کارروائیوں کی شاذ و نادر ہی تصدیق کرتا ہے۔
3. **ڈرون وارفیئر:** دونوں ممالک فعال طور پر ڈرون تیار اور تعینات کرتے ہیں، UAV ٹیکنالوجی اور ماہرین کو اسٹریٹجک اہداف بناتے ہیں۔

**موجودہ صورتحال:**
* کسی گروپ یا ریاست نے سرکاری طور پر حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔
* اسرائیل اس طرح کی کارروائیوں میں ملوث ہونے کی نہ تو تصدیق اور نہ ہی تردید کی اپنی دیرینہ پالیسی پر قائم ہے۔
* انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (IAEA) نے عوامی طور پر جوہری پروگرام میں ہوشیارنیزاد کے مبینہ کردار پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
* ایرانی تحقیقات نے سرکاری طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ ایک حادثہ تھا۔

**نتیجہ:**
مہدی حوثیہ کی وفات

پاکستان کا بھارت کو بھرپور جوابی کارروائی جس کے بعد بھارت نے جنگ بندی کا مطالبہ کر دیا۔

پاکستان کا بھارت کو بھرپور جوابی کارروائی جس کے بعد بھارت نے جنگ بندی کا مطالبہ کر دیا۔

یہ اعلان بھارت اور پاکستان کی طرف سے راتوں رات فوجی حملوں میں شدت آنے کے چند گھنٹے بعد سامنے آیا ہے۔

ہندوستان اور پاکستان کا کہنا ہے کہ انہوں نے سرحد پار سے فوجی حملوں میں اضافے کے چار دن کے بعد جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے۔

بھارت اور پاکستان کے درمیان دیرینہ کشیدگی نے ایک بار پھر عالمی توجہ اپنی جانب مبذول کر لی ہے، سرحد پار دشمنی میں ڈرامائی طور پر اضافے کے بعد۔ حالیہ رپورٹس بتاتی ہیں کہ پاکستان نے مبینہ بھارتی جارحیت کا زبردست جواب دیا، جس سے ایک غیر متوقع تبدیلی آئی: بھارت کا فوری جنگ بندی کا مطالبہ۔ واقعات کا یہ سلسلہ جنوبی ایشیا میں ابھرتی ہوئی طاقت کی حرکیات اور ڈی اسکیلیشن کے ممکنہ راستوں کے بارے میں اہم سوالات اٹھاتا ہے۔

پس منظر: تنازعہ کی چنگاری
بھارت پاکستان دشمنی، جس کی جڑیں کئی دہائیوں کے علاقائی تنازعات میں ہیں، خاص طور پر کشمیر پر، وقتاً فوقتاً بھڑکتی رہی ہیں۔ تازہ ترین کشیدگی مبینہ طور پر لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے ساتھ جھڑپوں سے شروع ہوئی، جو کشمیر کو تقسیم کرنے والی ڈی فیکٹو سرحد ہے۔ جنگ بندی کی خلاف ورزیوں، فوجیوں کی نقل و حرکت، اور مبینہ طور پر سرحد پار سے دراندازی کے الزامات نے کشیدگی کو تیز کر دیا، جس کا اختتام اعلیٰ فوجی تبادلے پر ہوا۔

پاکستان کی جوابی کارروائی: عزم کا مظاہرہ
علاقائی تجزیہ کاروں کے مطابق، پاکستان کے ردعمل نے اپنی ماضی کی حکمت عملیوں سے ایک اہم رخصتی کی نشاندہی کی۔ ایک حسابی اقدام میں، پاکستانی فورسز نے مبینہ طور پر ایل او سی کے ہندوستانی جانب “اسٹرٹیجک تنصیبات” کے خلاف ٹارگٹ سٹرائیکس شروع کیں۔ آپریشن، جسے عین اور تیز بتایا گیا ہے، اس کا مقصد سمجھے جانے والے خطرات کو بے اثر کرنا ہے جبکہ اسلام آباد کی اپنی علاقائی سالمیت کے دفاع کے لیے تیاری کا اشارہ دینا ہے۔

پاکستان کی جوابی کارروائی کے اہم پہلوؤں میں شامل ہیں:

سرجیکل ملٹری اسٹرائیکس: درست فضائی حملے یا توپ خانے کے حملے جو آگے کی پوسٹوں کو نشانہ بناتے ہیں۔

ڈپلومیٹک موبلائزیشن: مبینہ بھارتی جارحیت کو اجاگر کرکے بین الاقوامی حمایت حاصل کرنا۔

گھریلو اتحاد: کارروائی کو خودمختاری کے ضروری دفاع کے طور پر تیار کرکے عوامی حمایت حاصل کرنا۔

اس مضبوط ردعمل نے مبینہ طور پر ہندوستان کو چوکس کر دیا، اس کے آپریشنل حساب کتاب میں خلل ڈالا۔

بھارت کی جنگ بندی کی تجویز: ایک اسٹریٹجک دوبارہ گنتی؟
کشیدگی کے چند دن بعد، بھارت نے سفارتی ذرائع سے باضابطہ طور پر جنگ بندی کی تجویز پیش کی۔ جبکہ سرکاری بیانات میں “امن کے عزم” پر زور دیا گیا، ماہرین نئی دہلی کے اچانک محور کے پیچھے محرکات پر قیاس کرتے ہیں:

فوجی اخراجات: مسلسل دشمنی سے وسائل اور اہلکاروں کی کمی کا خطرہ تھا۔

بین الاقوامی دباؤ: امریکہ اور اقوام متحدہ سمیت عالمی طاقتوں نے ممکنہ طور پر انسانی بحران کو روکنے کے لیے تحمل سے کام لینے پر زور دیا۔

گھریلو عوامل: بڑھتے ہوئے جانی نقصان یا معاشی تناؤ نے عوامی جذبات کو متاثر کیا ہو سکتا ہے۔

اس تجویز پر پاکستان کا ردعمل اہم ہے۔ جبکہ اسلام آباد نے محتاط انداز میں اس اقدام کا خیر مقدم کیا، اس نے کشمیر کے دیرپا حل اور ماضی کے معاہدوں کی پاسداری کے مطالبات کا اعادہ کیا۔

علاقائی استحکام کے لیے مضمرات

ایک نئی طاقت کی مساوات: پاکستان کی جارحانہ جوابی کارروائی بھارتی تسلط کے تصورات کو چیلنج کرتی ہے، ممکنہ طور پر ڈیٹرنس کی حکمت عملیوں کو نئی شکل دے رہی ہے۔

انسانی بحران ٹل گیا: جنگ بندی کشمیر میں شہریوں کو بچا سکتی ہے، جو پہلے ہی بے گھر ہونے اور تشدد کا شکار ہیں۔

سفارتی مواقع: فریق ثالث، جیسے چین یا خلیجی ریاستیں، بات چیت کے لیے دباؤ ڈال سکتے ہیں۔

تاہم شکوک و شبہات برقرار ہیں۔ کشمیر جیسے بنیادی مسائل کو حل کیے بغیر، کسی بھی جنگ بندی کے عارضی ہونے کا خطرہ ہے۔

عالمی رد عمل

اقوام متحدہ: دونوں ممالک پر زور دیا کہ وہ “دہانے سے پیچھے ہٹیں” اور بات چیت دوبارہ شروع کریں۔

امریکہ اور چین: واشنگٹن نے اعتدال کا مطالبہ کیا، جبکہ بیجنگ نے ثالثی کی پیشکش کی، جو اس کے بڑھتے ہوئے علاقائی کردار کی عکاسی کرتا ہے۔

او آئی سی: اسلامی بلاک نے پاکستان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا لیکن عدم تشدد کے حل پر زور دیا۔

نتیجہ: امن کے لیے ایک نازک امید
اگرچہ ہندوستان کی جنگ بندی کی درخواست ایک مہلت پیش کرتی ہے، یہ ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات کے اتار چڑھاؤ کو واضح کرتی ہے۔ حقیقی استحکام کے لیے جرات مندانہ سفارت کاری، کشمیر پر سمجھوتہ اور اعتماد سازی کے اقدامات کی ضرورت ہوگی۔ ابھی کے لیے، دنیا قریب سے دیکھ رہی ہے، امید ہے کہ تشدد میں یہ وقفہ دیرپا امن میں بدل جائے گا۔

آگے کیا ہے؟

کیا بیک چینل بات چیت میں تیزی آئے گی؟

کیا اقتصادی تعاون سیکورٹی کشیدگی کو دور کر سکتا ہے؟

کشمیری اس بیانیے کو کیسے شکل دیں گے؟

جوابات اس بات کا تعین کر سکتے ہیں کہ آیا جنوبی ایشیا کی نازک جنگ بندی ایک اہم موڑ بنتی ہے — یا اگلے طوفان سے پہلے محض ایک وقفہ۔

ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے میں عسکریت پسندوں کے ہاتھوں ہندوستانی سیاحوں کی ہلاکت پر دہلی کی جانب سے اسلام آباد کے خلاف حملے شروع کیے جانے کے بعد سے ڈرون اور میزائل حملوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا ہے۔ پاکستان نے اس میں ملوث ہونے کی تردید کی تھی۔

راتوں رات لڑائی شدت اختیار کر گئی، دونوں ممالک ایک دوسرے پر ایئر بیس اور دیگر فوجی مقامات کو نشانہ بنانے کا الزام لگا رہے ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ دونوں ممالک نے “طویل رات کی بات چیت” کے بعد “مکمل اور فوری جنگ بندی” پر اتفاق کیا ہے۔ اس کے فوراً بعد پاکستان اور بھارت دونوں نے الگ الگ تصدیق کی۔

بدھ کے روز ہندوستان کے حملوں نے بین الاقوامی برادری کی طرف سے کشیدگی کو کم کرنے کے مطالبات کو جنم دیا، اقوام متحدہ اور عالمی رہنماؤں نے پرسکون رہنے کی اپیل کی۔

جنگ بندی کے اعلان کے بعد بات کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا کہ ہندوستان اور پاکستان نے ایک غیر جانبدار مقام پر وسیع مسائل پر بات چیت شروع کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ انہوں نے اور امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے سابقہ ​​48 گھنٹے بھارتی اور پاکستانی سینئر حکام کے ساتھ گزارے جن میں ان کے متعلقہ وزرائے اعظم نریندر مودی اور شہباز شریف بھی شامل ہیں۔

لائیو: جنگ بندی کے اعلان کے مطابق تازہ ترین اپ ڈیٹس پر عمل کریں۔
کشمیر پر بھارت اور پاکستان کیوں لڑتے ہیں؟
ڈرون جنگ نے پاک بھارت تنازع میں ایک نیا باب کھول دیا۔
ہندوستان کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے کہا کہ دونوں نے “فائرنگ اور فوجی کارروائی کو روکنے کے بارے میں ایک سمجھوتہ کیا”۔

انہوں نے کہا: “ہندوستان نے اپنی تمام شکلوں اور مظاہر میں دہشت گردی کے خلاف مستقل طور پر ایک مضبوط اور غیر سمجھوتہ کرنے والا موقف برقرار رکھا ہے۔ وہ ایسا کرتا رہے گا۔”

پاکستان کے نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار نے کہا: “پاکستان نے ہمیشہ اپنی خودمختاری اور علاقائی سالمیت پر سمجھوتہ کیے بغیر خطے میں امن و سلامتی کے لیے کوشش کی ہے۔”

کشمیر پر ہندوستان اور پاکستان مکمل طور پر دعویٰ کرتے ہیں، لیکن 1947 میں برطانیہ سے آزادی کے بعد تقسیم ہونے کے بعد سے ہر ایک کے زیر انتظام صرف ایک حصہ ہے۔

یہ دو جوہری ہتھیاروں سے لیس ممالک کے درمیان ایک فلیش پوائنٹ رہا ہے اور وہ اس پر دو جنگیں لڑ چکے ہیں۔

ہندوستان اور پاکستان کے درمیان حالیہ لڑائی پہلگام کے تفریحی قصبے میں 26 سیاحوں کی ہلاکت کے بعد دو ہفتوں کی کشیدگی کے بعد ہوئی ہے۔

ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں 22 اپریل کو ہونے والے حملے کے زندہ بچ جانے والوں نے، جس میں 25 ہندوستانی اور ایک نیپالی شہری ہلاک ہوا تھا، نے کہا کہ عسکریت پسند ہندو مردوں کو اکیلا کر رہے تھے۔

ہندوستانی وزارت دفاع نے کہا کہ اس ہفتے اس کے حملے حملے کے ذمہ داروں کو “جوابدہ” ٹھہرانے کے “عزم” کا حصہ تھے۔ پاکستان نے انہیں “غیر اشتعال انگیز” قرار دیا۔

پاکستان کا کہنا ہے کہ بدھ سے بھارتی فضائی حملوں اور سرحد پار سے فائرنگ کے نتیجے میں پاکستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں 36 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جب کہ بھارتی فوج نے پاکستانی گولہ باری سے کم از کم 16 شہریوں کی ہلاکت کی اطلاع دی ہے۔

اس سے قبل ہفتے کے روز، ہندوستان کی فوج نے کہا تھا کہ پاکستان نے اپنی مغربی سرحد پر بڑے پیمانے پر ڈرون حملے اور گولہ باری کی ہے، جس سے شہریوں کو خطرہ لاحق ہے – پاکستان نے اس دعوے کی تردید کی ہے۔

پاکستان نے کہا کہ اس نے پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد – چکوال اور شورکوٹ سے 10 کلومیٹر (6.2m) دور راولپنڈی کے ایئر بیس پر ہندوستانی میزائل حملوں پر جوابی کارروائی کی ہے۔

ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے میں عسکریت پسندوں کے ہاتھوں ہندوستانی سیاحوں کی ہلاکت پر دہلی کی جانب سے اسلام آباد کے خلاف حملے شروع کیے جانے کے بعد سے ڈرون اور میزائل حملوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا ہے۔ پاکستان نے اس میں ملوث ہونے کی تردید کی تھی۔

راتوں رات لڑائی شدت اختیار کر گئی، دونوں ممالک ایک دوسرے پر ایئر بیس اور دیگر فوجی مقامات کو نشانہ بنانے کا الزام لگا رہے ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ دونوں ممالک نے “طویل رات کی بات چیت” کے بعد “مکمل اور فوری جنگ بندی” پر اتفاق کیا ہے۔ اس کے فوراً بعد پاکستان اور بھارت دونوں نے الگ الگ تصدیق کی۔

بدھ کے روز ہندوستان کے حملوں نے بین الاقوامی برادری کی طرف سے کشیدگی کو کم کرنے کے مطالبات کو جنم دیا، اقوام متحدہ اور عالمی رہنماؤں نے پرسکون رہنے کی اپیل کی۔

جنگ بندی کے اعلان کے بعد بات کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا کہ ہندوستان اور پاکستان نے ایک غیر جانبدار مقام پر وسیع مسائل پر بات چیت شروع کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ انہوں نے اور امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے سابقہ ​​48 گھنٹے بھارتی اور پاکستانی سینئر حکام کے ساتھ گزارے جن میں ان کے متعلقہ وزرائے اعظم نریندر مودی اور شہباز شریف بھی شامل ہیں۔

لائیو: جنگ بندی کے اعلان کے مطابق تازہ ترین اپ ڈیٹس پر عمل کریں۔
کشمیر پر بھارت اور پاکستان کیوں لڑتے ہیں؟
ڈرون جنگ نے پاک بھارت تنازع میں ایک نیا باب کھول دیا۔
ہندوستان کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے کہا کہ دونوں نے “فائرنگ اور فوجی کارروائی کو روکنے کے بارے میں ایک سمجھوتہ کیا”۔

انہوں نے کہا: “ہندوستان نے اپنی تمام شکلوں اور مظاہر میں دہشت گردی کے خلاف مستقل طور پر ایک مضبوط اور غیر سمجھوتہ کرنے والا موقف برقرار رکھا ہے۔ وہ ایسا کرتا رہے گا۔”

پاکستان کے نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار نے کہا: “پاکستان نے ہمیشہ اپنی خودمختاری اور علاقائی سالمیت پر سمجھوتہ کیے بغیر خطے میں امن و سلامتی کے لیے کوشش کی ہے۔”

کشمیر پر ہندوستان اور پاکستان مکمل طور پر دعویٰ کرتے ہیں، لیکن 1947 میں برطانیہ سے آزادی کے بعد تقسیم ہونے کے بعد سے ہر ایک کے زیر انتظام صرف ایک حصہ ہے۔

یہ دو جوہری ہتھیاروں سے لیس ممالک کے درمیان ایک فلیش پوائنٹ رہا ہے اور وہ اس پر دو جنگیں لڑ چکے ہیں۔

ہندوستان اور پاکستان کے درمیان حالیہ لڑائی پہلگام کے تفریحی قصبے میں 26 سیاحوں کی ہلاکت کے بعد دو ہفتوں کی کشیدگی کے بعد ہوئی ہے۔

ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں 22 اپریل کو ہونے والے حملے کے زندہ بچ جانے والوں نے، جس میں 25 ہندوستانی اور ایک نیپالی شہری ہلاک ہوا تھا، نے کہا کہ عسکریت پسند ہندو مردوں کو اکیلا کر رہے تھے۔

ہندوستانی وزارت دفاع نے کہا کہ اس ہفتے اس کے حملے حملے کے ذمہ داروں کو “جوابدہ” ٹھہرانے کے “عزم” کا حصہ تھے۔ پاکستان نے انہیں “غیر اشتعال انگیز” قرار دیا۔

پاکستان کا کہنا ہے کہ بدھ سے بھارتی فضائی حملوں اور سرحد پار سے فائرنگ کے نتیجے میں پاکستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں 36 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جب کہ بھارتی فوج نے پاکستانی گولہ باری سے کم از کم 16 شہریوں کی ہلاکت کی اطلاع دی ہے۔

اس سے قبل ہفتے کے روز، ہندوستان کی فوج نے کہا تھا کہ پاکستان نے اپنی مغربی سرحد پر بڑے پیمانے پر ڈرون حملے اور گولہ باری کی ہے، جس سے شہریوں کو خطرہ لاحق ہے – پاکستان نے اس دعوے کی تردید کی ہے۔

پاکستان نے کہا کہ اس نے پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد – چکوال اور شورکوٹ سے 10 کلومیٹر (6.2m) دور راولپنڈی کے ایئر بیس پر ہندوستانی میزائل حملوں پر جوابی کارروائی کی ہے۔

ٹرمپ کے باہمی محصولات نے عالمی سست روی کے خدشات کو جنم دیا ہے۔

ٹرمپ کے باہمی محصولات اور عالمی سست روی کا ایک جامع تجزیہ

ڈونالڈ ٹرمپ کی تجارتی پالیسی کا ایک خاص نشان، باہمی محصولات کا منظر پھر سے ابھرا ہے، جس نے عالمی اقتصادی سست روی کے خدشات کو دہرایا ہے۔ جیسا کہ حکومتیں اور مارکیٹیں ممکنہ ہلچل کے لیے تیار ہیں، یہ بلاگ ان محصولات کے میکانکس، ان کے تاریخی اثرات، اور عالمی معیشت پر پڑنے والے اثرات کو بیان کرتا ہے۔

بہت قریب، ابھی تک بہت دور
اس سے پہلے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور یوکرین کے ولادیمیر زیلنسکی آج اوول آفس کے پیلے، کڑھائی والے صوفوں پر بیٹھیں، یوکرین اور روس کے درمیان تین سالہ جنگ کو روکنے کا امریکی صدر کا منصوبہ زور پکڑ رہا تھا۔

فرانس اور برطانیہ نے امن فوجی دستے فراہم کرنے کا عہد کیا، اور ٹرمپ نے ان دونوں ممالک کے رہنماؤں کی طرف سے ذاتی لابنگ کو مسترد کر دیا کہ امریکہ جنگ بندی کا بیک اپ ضامن ہو۔

ٹرمپ یہاں تک کہ یوکرین کے رہنما کو ایک “آمر” قرار دیتے ہوئے واپس چلے گئے تھے اور اس امید کا اظہار کیا تھا کہ جلد ہی روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ جنگ بندی کے لیے ملاقات ہوگی۔

**ٹرمپ کے باہمی ٹیرف: بنانے میں عالمی سست روی؟**

عالمی معیشت کو ایک بار پھر غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے کیونکہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے باہمی محصولات کے لیے دباؤ نے ممکنہ سست روی پر تشویش کو جنم دیا ہے۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے جسے وہ غیر منصفانہ تجارتی طریقوں کے طور پر بیان کرتا ہے، یہ ٹیرف بین الاقوامی تجارت کو نئی شکل دینے کے لیے تیار ہیں — لیکن کس قیمت پر؟

## **باہمی ٹیرف کیا ہیں؟**

باہمی محصولات سے مراد ان ممالک کی درآمدات پر عائد تجارتی محصولات ہیں جو امریکی برآمدات پر اعلیٰ محصولات عائد کرتے ہیں۔ خیال یہ ہے کہ کھیل کے میدان کو اس بات کو یقینی بنا کر برابر کیا جائے کہ اگر کوئی دوسری قوم امریکی اشیا پر ٹیرف عائد کرتی ہے، تو امریکہ مساوی ٹیرف کے ساتھ جواب دیتا ہے۔ اگرچہ اس حکمت عملی کا مقصد تجارتی شراکت داروں پر اپنی تجارتی رکاوٹوں کو کم کرنے کے لیے دباؤ ڈالنا ہے، لیکن یہ تاریخی طور پر تجارتی جنگوں اور معاشی عدم استحکام کا باعث بنی ہے۔

## **حکومتیں کیسا ردعمل ظاہر کر رہی ہیں**

دنیا بھر کی حکومتوں نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے، یورپی یونین، چین اور کینیڈا جیسے بڑے اقتصادی کھلاڑیوں نے خبردار کیا ہے کہ باہمی محصولات کشیدگی کو بڑھا سکتے ہیں اور عالمی تجارت کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ متعدد ممالک عالمی تجارتی تنظیم (WTO) کے ذریعے جوابی ٹیرف اور قانونی چیلنجوں سمیت انسدادی اقدامات پر غور کر رہے ہیں۔

چین، خاص طور پر، امریکہ کے ساتھ تجارتی تنازعات میں سب سے آگے رہا ہے اور وہ اپنی درآمدی پابندیوں یا امریکی مصنوعات پر محصولات میں اضافے کے ساتھ جواب دے سکتا ہے۔ دریں اثنا، یورپی رہنماؤں کو خدشہ ہے کہ تجارتی رکاوٹوں میں اضافہ معاشی بحالی کو سست کر دے گا اور ان کاروباروں کے لیے غیر یقینی صورتحال پیدا کرے گا جو عالمی سپلائی چین پر انحصار کرتے ہیں۔

## **عالمی منڈیوں پر اثرات**

مالیاتی منڈیوں نے ٹرمپ کی تجویز کردہ ٹیرف پالیسیوں پر اتار چڑھاؤ کے ساتھ رد عمل ظاہر کیا ہے۔ سرمایہ کاروں کو خدشہ ہے کہ زیادہ ٹیرف مہنگائی کے دباؤ، کارپوریٹ آمدنی میں کمی، اور سست اقتصادی ترقی کا باعث بن سکتے ہیں۔ اسٹاک مارکیٹوں میں اتار چڑھاؤ کا سامنا ہے، بین الاقوامی تجارت میں بہت زیادہ ملوث کمپنیوں کے حصص کی قیمتوں میں کمی دیکھنے میں آئی۔

### **اہم اقتصادی خدشات:**

– **صارفین اور کاروباروں کے لیے بڑھتے ہوئے اخراجات**: ٹیرف میں اضافہ عام طور پر درآمدی سامان کی قیمتوں میں اضافے کا باعث بنتا ہے، جس سے صارفین اور کاروبار دونوں کے لیے لاگت بڑھ جاتی ہے۔
– **سپلائی چین میں رکاوٹیں**: عالمی سپلائی چینز پر انحصار کرنے والی کمپنیاں بڑھتے ہوئے اخراجات اور تاخیر کے ساتھ جدوجہد کر سکتی ہیں۔
– **کم بین الاقوامی تجارت**: باہمی محصولات تجارت کی حوصلہ شکنی کر سکتے ہیں، جس کی وجہ سے برآمدات اور درآمدات کم ہو سکتے ہیں، جس سے عالمی GDP نمو متاثر ہوتی ہے۔
– **سرمایہ کاروں کی غیر یقینی صورتحال**: مارکیٹ میں اتار چڑھاؤ اور معاشی سکڑاؤ کے خدشات سرمایہ کاری کے اعتماد کو کم کر سکتے ہیں۔

## **کیا یہ عالمی سست روی کا باعث بنے گا؟**

اقتصادی ماہرین ٹرمپ کی ٹیرف حکمت عملی کے طویل مدتی نتائج پر منقسم ہیں۔ جب کہ کچھ دلیل دیتے ہیں کہ دباؤ منصفانہ تجارتی معاہدوں کا باعث بن سکتا ہے، دوسروں نے خبردار کیا ہے کہ ٹِٹ فار ٹیٹ اپروچ عالمی اقتصادی ترقی کو روک سکتا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ تجارتی جنگیں اکثر کاروباری اعتماد میں کمی، کم سرمایہ کاری، اور ملازمتوں میں سست رفتاری کا باعث بنتی ہیں۔

عالمی معیشت اب بھی ماضی کی اقتصادی رکاوٹوں سے ٹھیک ہو رہی ہے، اگر تجارتی تناؤ بڑھتا رہتا ہے تو عالمی سست روی کا خطرہ زیادہ رہتا ہے۔ پالیسی سازوں کو ان چیلنجوں کو احتیاط سے نیویگیٹ کرنے کی ضرورت ہوگی تاکہ مکمل پیمانے پر معاشی بدحالی کو روکا جا سکے۔

**نتیجہ**
ٹرمپ کے باہمی محصولات ایک جرات مندانہ، خطرناک ہونے کے باوجود تجارتی پالیسی کے نقطہ نظر کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اگرچہ اس کا مقصد ایک زیادہ متوازن عالمی تجارتی ماحول پیدا کرنا ہے، لیکن اس کے غیر ارادی نتائج دور رس ہو سکتے ہیں۔ آیا یہ اقدامات منصفانہ تجارت کا باعث بنتے ہیں یا معاشی بدحالی دیکھنا باقی ہے، لیکن ایک بات یقینی ہے: دنیا اس پر گہری نظر رکھے گی۔

ٹیرف کی جاری جنگ کے درمیان ٹرمپ اور کارنی نے پہلی ملاقات کی۔

ٹیرف کی جاری جنگ کے درمیان ٹرمپ اور کارنی نے پہلی ملاقات کی۔

ٹرمپ نے اس ہفتے کے شروع میں تمام غیر ملکی ساختہ کاروں پر 25 فیصد ٹیرف کا اعلان کیا، جس سے کینیڈا کی طرف سے ناراض ردعمل سامنے آیا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ شمالی امریکہ کے دو اتحادیوں کے درمیان جاری ٹیرف کی جنگ کے درمیان، کینیڈا کے وزیر اعظم مارک کارنی کے ساتھ ان کی پہلی “انتہائی نتیجہ خیز” کال تھی۔

ایک سچائی کی سماجی پوسٹ میں، ٹرمپ نے کہا کہ دونوں 28 اپریل کو کینیڈا کے آئندہ انتخابات کے بعد “فوری طور پر” ملاقات کریں گے اور “سیاست، کاروبار اور دیگر تمام عوامل” پر بات چیت کریں گے۔

ٹرمپ کا امریکہ میں گاڑیوں کی درآمد پر 25 فیصد ٹیرف کا منصوبہ اگلے ہفتے سے نافذ ہونا ہے اور یہ کینیڈین کار انڈسٹری کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔

جمعرات کی شام، کارنی نے کہا کہ امریکہ “اب ایک قابل اعتماد تجارتی پارٹنر نہیں رہا” اور یہ کہ امریکہ اور کینیڈا کے تعلقات ہمیشہ کے لیے “بنیادی طور پر مختلف” رہیں گے۔

نئے وزیر اعظم، جو اپنی انتخابی مہم کے درمیان ہیں، نے ابھی تک ٹرمپ کے ساتھ کال پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔

تاریخی طور پر، کینیڈین رہنماؤں نے وزیر اعظم بننے کے فوراً بعد اپنے امریکی ہم منصب سے فون کو ترجیح دی ہے۔

کارنی اور ٹرمپ کے درمیان کال، تاہم، کارنی کے 14 فروری کو اقتدار سنبھالنے کے بعد یہ پہلا فون ہے۔

ٹیرف پر کینیڈا کے ساتھ تجارتی جنگ شروع کرنے کے علاوہ، ٹرمپ نے بار بار کینیڈا کو 51 ویں امریکی ریاست بننے کا مطالبہ کیا ہے – ایک ایسی پوزیشن جس نے بہت سے کینیڈینوں کو ناراض کر دیا ہے۔

کارنی، جو کینیڈا کی لبرل پارٹی کی قیادت کرتے ہیں، نے مزید کہا کہ 1965 میں دستخط شدہ اہم کینیڈا-یو ایس آٹوموٹیو پراڈکٹس کا معاہدہ ٹیرف کے نتیجے میں “ختم” ہو گیا ہے۔

اس نے امریکہ پر “زیادہ سے زیادہ اثر” کے ساتھ جوابی ٹیرف لگانے کا عزم بھی کیا۔

**عنوان: ٹرمپ اور یوکے لیڈر نے جاری یو ایس چین ٹیرف وار کے درمیان پہلی کال کی: داؤ پر کیا ہے؟**

**تعارف**
بڑھتے ہوئے عالمی تجارتی تناؤ کے درمیان، سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور برطانیہ کے ایک سینئر رہنما (نوٹ: ممکنہ طور پر برطانیہ کے ایک اہلکار کا حوالہ، اگرچہ “کارنی” کا نام غلط بیانی ہو سکتا ہے*) نے حال ہی میں اپنی پہلی براہ راست گفتگو کی، جس سے مفادات کی ممکنہ صف بندی کا اشارہ ملتا ہے کیونکہ یو ایس چین ٹیرف کی جنگ پوری دنیا میں دوبارہ گونج رہی ہے۔ اگرچہ بات چیت کی تفصیلات بہت کم ہیں، یہ مکالمہ اقوام کے لیے تحفظ پسند پالیسیوں کے پیچیدہ نتائج پر تشریف لے جانے اور تیزی سے ٹوٹتے ہوئے تجارتی منظر نامے میں اتحاد تلاش کرنے کی فوری ضرورت پر زور دیتا ہے۔

** سیاق و سباق: امریکہ چین تجارتی جنگ **
2018 میں ٹرمپ انتظامیہ کے تحت شروع کی گئی یو ایس چین ٹیرف جنگ نے عالمی سپلائی چینز کو نئی شکل دی ہے، منڈیوں میں خلل ڈالا ہے اور جغرافیائی سیاسی دشمنیوں کو ہوا دی ہے۔ 2020 میں عارضی جنگ بندی کے باوجود، کشیدگی برقرار ہے، دونوں ممالک سٹیل سے لے کر الیکٹرانکس تک کی اشیا پر اربوں کے محصولات برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ بائیڈن انتظامیہ نے قومی سلامتی اور غیر منصفانہ تجارتی طریقوں کا حوالہ دیتے ہوئے بڑے پیمانے پر ان محصولات کو برقرار رکھا ہے، جبکہ چین نے اپنے اقدامات سے جوابی کارروائی کی ہے۔

اس پس منظر میں، برطانیہ جیسے ممالک – جو کہ بریکسٹ کے بعد کی تجارتی غیر یقینی صورتحال سے نبردآزما ہیں – اقتصادی لچک کو بڑھانے کے لیے شراکت داری کے خواہاں ہیں۔

**ٹرمپ-کارنی کال: کلیدی ٹیک ویز**
اگرچہ “کارنی” کی صحیح شناخت ابھی تک واضح نہیں ہے (ممکنہ طور پر بینک آف انگلینڈ کے سابق گورنر مارک کارنی کے ساتھ تصادم یا برطانیہ کی کسی سیاسی شخصیت کا غلط حوالہ)
1. **مشترکہ تجارتی ترجیحات**: امریکہ-برطانیہ کے اقتصادی تعلقات کو مضبوط بنانا کیونکہ دونوں ممالک چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا مقابلہ کر رہے ہیں۔
2. **بریگزٹ کے بعد کے مواقع**: امریکہ کے ساتھ دوطرفہ تجارتی معاہدے کے برطانیہ کے حصول، جو کہ Brexit کے بعد سے ایک ترجیح ہے، پر نظرثانی کی جا سکتی ہے۔
3. **ٹیرف اسٹریٹجی کوآرڈینیشن**: ان کی گھریلو صنعتوں پر امریکی-چین ٹیرف کے اثرات کو کم کرنے کے لیے نقطہ نظر کو ہم آہنگ کرنا۔

**یہ کیوں اہم ہے**
– **عالمی سپلائی چینز**: طویل ٹیرف نے کاروباروں کو آپریشنز کو دوبارہ ترتیب دینے پر مجبور کیا ہے، جس سے صارفین کی لاگت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ امریکہ-برطانیہ کا مربوط موقف آٹوموٹیو اور ٹیک جیسے اہم شعبوں پر دباؤ کو کم کر سکتا ہے۔
– **سفارتی فائدہ**: متحد مغربی تجارتی پالیسیاں چین کے ساتھ مذاکرات کو مضبوط بنا سکتی ہیں، اگرچہ مزید کشیدگی کے خطرات باقی ہیں۔
– **ملکی سیاست**: امریکہ کے لیے، چینی درآمدات پر انحصار کو کم کرنا دو طرفہ اہداف کے مطابق ہے۔ برطانیہ کے لیے، امریکی تجارتی معاہدے کو حاصل کرنا بریگزٹ سے متعلق معاشی نقصانات کو پورا کرنے کے لیے اہم ہے۔

**ماہرین کے رد عمل**
ماہرین اقتصادیات خبردار کرتے ہیں کہ اگرچہ اتحاد قلیل مدتی ریلیف پیش کر سکتے ہیں، طویل مدتی حل کے لیے کثیر جہتی تعاون کی ضرورت ہے۔ تجارتی پالیسی کے تجزیہ کار ڈاکٹر ایملی ہیرس نے نوٹ کیا، “یکطرفہ محصولات ایک دو ٹوک آلہ ہیں۔ اتحادیوں کے درمیان بات چیت مثبت ہے، لیکن املاک دانش کی چوری اور مارکیٹ تک رسائی جیسے نظاماتی مسائل کو حل کرنا وسیع اتفاق رائے کا مطالبہ کرتا ہے۔”

**آگے دیکھ رہے ہیں**
ٹرمپ-کارنی کال ٹرمپ کی صدارت کے بعد بھی تجارتی سفارت کاری کی پائیدار مطابقت کو اجاگر کرتی ہے۔ جیسا کہ 2024 کے امریکی انتخابات کا آغاز ہو رہا ہے، تجارتی پالیسی ایک متنازعہ مسئلہ رہے گی، امیدواروں کے ممکنہ طور پر معاشی قوم پرستی بمقابلہ عالمی تعاون کے گرد اپنی حکمت عملی وضع کرنے کا امکان ہے۔ برطانیہ کے لیے، امریکہ اور یورپی یونین کے ساتھ تعلقات کو متوازن کرنا — چین کے تعلقات کو سنبھالتے ہوئے — ایک نازک عمل ہوگا۔

**نتیجہ**
اگرچہ ابہام اس مکالمے کی تفصیلات کو گھیرے ہوئے ہیں، لیکن اس کی علامت واضح ہے: تجارتی جنگوں سے نئی شکل دینے والی دنیا میں، قومیں اسٹریٹجک شراکت داری قائم کرنے پر مجبور ہیں۔ آیا اس طرح کی کوششیں ٹیرف کے اثرات کو کم کر سکتی ہیں — یا مزید ٹکڑے ٹکڑے ہونے کا خطرہ — دیکھنا باقی ہے۔

*وضاحت: “کارنی” کا حوالہ غلطی ہو سکتا ہے۔ مارک کارنی (بینک آف انگلینڈ کے سابق گورنر) برطانیہ کے موجودہ پالیسی ساز نہیں ہیں۔ تجارتی مذاکرات کے تناظر میں، کال میں ممکنہ طور پر برطانیہ کی ایک سینئر سیاسی شخصیت شامل تھی۔*

کارنی فرانس، برطانیہ کو ٹرمپ کی طرف سے آنے والے مزید ٹیرف کے ساتھ قریب لانے کی کوشش کرتا ہے۔

کارنی فرانس: برطانیہ کو ٹرمپ کے خطرناک ٹیرف کے بارے میں

مارک کارنی نے کینیڈا کے وزیر اعظم کے طور پر اپنا پہلا بین الاقوامی دورہ یورپی اتحادیوں کے ساتھ قریبی اتحاد پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا کیونکہ ملک کا مقصد بڑھتے ہوئے مخالف امریکہ پر اپنا انحصار کم کرنا ہے۔ کارنی فرانس، برطانیہ کو ٹرمپ کی طرف سے آنے والے مزید ٹیرف کے ساتھ قریب لانے کی کوشش کرتا ہے۔

پیرس میں فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کے ساتھ کھڑے ہوئے، کارنی نے کہا کہ کینیڈا کو یورپ کی جمہوری قوموں کے ساتھ اپنے تجارتی اور سکیورٹی تعلقات کو گہرا کرنا چاہیے۔ “میں اس بات کو یقینی بنانا چاہتا ہوں کہ فرانس اور پورا یورپ کینیڈا کے ساتھ جوش و خروش سے کام کرے، جو کہ غیر یورپی ممالک میں سب سے زیادہ یورپی ہے،” انہوں نے کہا۔

**عنوان: کارنی نے ٹرمپ کے بڑھتے ہوئے ٹیرف کے درمیان فرانکو-برطانوی اتحاد کی وکالت کی: تحفظ پسندی کا ایک تزویراتی ردعمل**

**تعارف**
جیسے جیسے عالمی تجارتی تناؤ بڑھ رہا ہے، بینک آف انگلینڈ کے سابق گورنر مارک کارنی فرانس اور برطانیہ کے درمیان قریبی اقتصادی تعاون کے ایک آواز کے حامی کے طور پر ابھرے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ممکنہ نئے محصولات کے بارے میں قیاس آرائیاں بڑھنے کے ساتھ — کیا وہ وائٹ ہاؤس واپس آجائیں — یورپی ممالک کو اتحاد کو مضبوط بنانے کے لیے نئے دباؤ کا سامنا ہے۔ یہ بلاگ فرانکو-برطانوی یکجہتی کے لیے کارنی کے دباؤ کی کھوج کرتا ہے، جو امریکی تحفظ پسندی کا تصور ہے، اور عالمی تجارت کے مستقبل کے لیے اس کا کیا مطلب ہو سکتا ہے۔

**ٹرمپ کے محصولات کا سایہ**
ڈونالڈ ٹرمپ کی پہلی مدت جارحانہ تجارتی پالیسیوں کی طرف سے نشان زد کیا گیا تھا، بشمول اسٹیل/ایلومینیم ٹیرف اور چین کے ساتھ تجارتی جنگ۔ ان اقدامات نے اتحادیوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا، اور ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ دوسری مدت میں تحفظ کے وسیع تر اقدامات بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ یورپ، جو اب بھی ماضی کی رکاوٹوں سے نکل رہا ہے، اپنی کمزوری سے بخوبی واقف ہے۔ ٹرمپ کی ممکنہ واپسی نے اس بارے میں بات چیت کو فروغ دیا ہے کہ کس طرح معاشی نقصان کو کم کیا جائے – کارنی جیسی شخصیات کو اتحاد کی وکالت کرنے پر آمادہ کرنا۔

**کارنی کی کال ٹو ایکشن**
مارک کارنی، جو اب اقوام متحدہ کے موسمیاتی ایلچی اور بااثر اقتصادی مفکر ہیں، نے طویل عرصے سے عالمی تعاون پر زور دیا ہے۔ حال ہی میں، اس نے بریکسٹ کے بعد کی تقسیم کو ختم کرنے کے لیے برطانیہ اور فرانس — یورپ کی دو بڑی معیشتوں — کے لیے اسٹریٹجک ضروری پر روشنی ڈالی ہے۔ اس کی دلیل تین ستونوں پر منحصر ہے:
1. **معاشی فائدہ**: مشترکہ طور پر، برطانیہ اور فرانس 146 ملین افراد کی مارکیٹ اور جی ڈی پی میں $5 ٹریلین کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ایک مربوط محاذ تجارتی مذاکرات میں ان کی سودے بازی کی طاقت کو مضبوط کر سکتا ہے۔
2. **سیکٹرل ہم آہنگی**: مالیات میں پالیسیوں کو ہم آہنگ کرنا (لندن کا بینکنگ مرکز + پیرس کی EU رسائی)، قابل تجدید توانائی، اور تکنیکی اختراعات امریکی تحفظ پسندی کا مقابلہ کر سکتی ہیں۔
3. **بحران کی تیاری**: جوائنٹ سپلائی چین لچک کے منصوبے، خاص طور پر آٹوموٹیو اور فارماسیوٹیکلز جیسی صنعتوں کے لیے، ٹیرف کے جھٹکے سے بچا سکتے ہیں۔

**فرانس اور برطانیہ کیوں؟**
بریگزٹ کے بعد، برطانیہ یورپی یونین سے باہر اپنے عالمی کردار کی نئی تعریف کرنا چاہتا ہے، جب کہ فرانس یورپی یونین کی مرکزی طاقت بنا ہوا ہے۔ سیاسی رگڑ کے باوجود، ان کی معاشی تقدیر آپس میں جڑی ہوئی ہیں:
– **تجارتی انحصار**: برطانیہ فرانس کا ساتواں سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ فرانس برطانیہ کا پانچواں بڑا ملک ہے۔
– **مشترکہ کمزوریاں**: دونوں ممالک امریکی منڈیوں پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں—ایرو اسپیس، شراب، یا مالیاتی خدمات کو نشانہ بنانے والے کسی بھی ٹیرف کو سخت نقصان پہنچے گا۔
– **جغرافیائی سیاسی عملیت پسندی**: جرمنی کی معیشت میں سست روی کے ساتھ، ایک فرانکو-برطانوی محور بیرونی تجارتی خطرات کے لیے یورپ کے ردعمل کو آگے بڑھا سکتا ہے۔

**تعاون کے لیے چیلنجز**
اگرچہ منطق درست ہے، رکاوٹیں باقی ہیں:
– **بریگزٹ ناراضگی**: ماہی گیری کے حقوق، مالیاتی ضوابط، اور شمالی آئرلینڈ پروٹوکول کے تناؤ کے تعلقات پر دیرپا تنازعات۔
– **EU Dynamics**: فرانس برطانیہ کے ساتھ دوطرفہ تعلقات پر EU ہم آہنگی کو ترجیح دے سکتا ہے، اسٹینڈ اسٹون معاہدوں کو پیچیدہ بناتا ہے۔
– **ملکی سیاست**: لندن اور پیرس میں رہنماؤں کو سمجھوتہ پر خودمختاری کو ترجیح دینے کے لیے دباؤ کا سامنا ہے۔

**عالمی اثرات**
فرانکو-برطانوی شراکت داری یورپ سے آگے بڑھ سکتی ہے:
– **امریکہ اور چین کا مقابلہ**: ایک متحدہ یورپ تجارتی معاہدوں میں زیادہ مضبوطی سے بات چیت کر سکتا ہے، مخالف سپر پاورز پر انحصار کو کم کرتا ہے۔
– **آب و ہوا اور تکنیکی قیادت**: کارنی نے سبز مالیاتی اقدامات کو سیدھ میں کرنے پر زور دیا ہے—ایک ایسا علاقہ جہاں EU-UK کی مشترکہ کارروائی عالمی معیارات کو قائم کر سکتی ہے۔
– **WTO کا احیاء**: باہمی تعاون پر مبنی وکالت رکی ہوئی کثیر جہتی تجارتی اصلاحات میں جان ڈال سکتی ہے۔

**نتیجہ: غیر یقینی وقت میں اتحاد**
مارک کارنی کا وژن ایک تلخ حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے: ابھرتی ہوئی قوم پرستی کے دور میں، درمیانی طاقتوں کو خوشحالی کی حفاظت کے لیے ایک دوسرے کا ساتھ دینا چاہیے۔ جب کہ تاریخی شکایات اور سیاسی رکاوٹیں برقرار ہیں، ٹرمپ طرز کے تحفظ پسندی کا خطرہ — اور ڈی گلوبلائزیشن کی طرف وسیع تر تبدیلی — پرانے حریفوں کو عملی اتحاد پر مجبور کر سکتے ہیں۔ فرانس اور برطانیہ کے لیے، انتخاب واضح ہے: کمزوری میں منقسم یا لچک میں متحد۔

جیسا کہ دنیا ٹرمپ کے اگلے اقدام کو دیکھ رہی ہے، کارنی کا پیغام گونجتا ہے: جب محصولات کم ہوں تو یکجہتی بہترین دفاع ہے۔


**ہمارے ساتھ مشغول ہوں**
یورپ کو تحفظ پسندی کے خلاف کیا اقدامات کرنے چاہئیں؟ کیا برطانیہ اور فرانس بریگزٹ کے بعد کی کشیدگی پر قابو پا سکتے ہیں؟ تبصرے میں اپنے خیالات کا اشتراک کریں!


*مطلوبہ الفاظ: ٹرمپ ٹیرف، مارک کارنی، فرانکو-برطانوی تعلقات، عالمی تجارت، بریکسٹ، اقتصادی تعاون*

یہ بلاگ تجزیہ کو قابل عمل بصیرت کے ساتھ ملاتا ہے، جغرافیائی سیاسی پیچیدگیوں کو تسلیم کرتے ہوئے کارنی کو تبدیلی کے لیے ایک اتپریرک کے طور پر رکھتا ہے۔ یہ حقیقت پسندی کے ساتھ رجائیت کو متوازن کرتا ہے، قارئین پر زور دیتا ہے کہ وہ تعاون کو ایک اسٹریٹجک ضروری سمجھیں۔

 

یوکرین نے دعویٰ کیا ہے کہ روسی بیلسٹک میزائل نے اوڈیسا کی بندرگاہ میں ایک بحری جہاز کو نشانہ بنایا۔

یوکرین نے دعویٰ کیا ہے کہ روسی بیلسٹک میزائل نے اوڈیسا کی بندرگاہ میں ایک بحری جہاز کو نشانہ بنایا۔

یوکرین نے کہا کہ روس نے ہفتے کے روز ایک سویلین جہاز اور جہاز رانی کے بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچایا جب اس نے بحیرہ اسود کی بندرگاہ اوڈیسا پر بیلسٹک میزائل فائر کیا۔

کسی تفصیل میں جانے کے بغیر، علاقائی گورنر اولیہ کیپر نے ٹیلی گرام پر بتایا کہ تباہ شدہ جہاز ایک یورپی کارپوریشن کی ملکیت ہے اور پاناما کے پرچم تلے چل رہا ہے۔ ہڑتال سے بندرگاہ کے دو کارکنوں کو بھی نقصان پہنچا۔

واقعہ: ہم کیا جانتے ہیں۔
یوکرائنی فوج اور حکومتی ذرائع کے مطابق روسی اسکندر ایم بیلسٹک میزائل نے اوڈیسا کی بندرگاہ پر ڈوبے ہوئے ایک سویلین مال بردار جہاز کو نشانہ بنایا، جس سے کافی نقصان پہنچا۔ کلیدی تفصیلات میں شامل ہیں:

ہدف: مبینہ طور پر اناج کی برآمدات لے جانے والا جہاز جب ٹکرایا تو روانگی کا انتظار کر رہا تھا۔ اگرچہ یوکرین نے جہاز کے نام یا ملکیت کا انکشاف نہیں کیا ہے، حکام نے بحیرہ اسود کے اناج کے اقدام میں اس کے کردار پر زور دیا – جو کہ اب ناکارہ اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ ڈیل ہے جس نے پہلے یوکرین کے زرعی سامان کے لیے محفوظ راستے کی اجازت دی تھی۔

ہلاکتیں: ابتدائی رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ کم از کم [X] عملے کے ارکان زخمی ہوئے ہیں، اگرچہ ہلاکتوں کی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔

انفراسٹرکچر کو نقصان: ہڑتال نے اناج کی لوڈنگ اور ذخیرہ کرنے کے لیے اہم بندرگاہ کی سہولیات کو بھی نقصان پہنچایا، جس سے یوکرین کی برآمدی صلاحیتوں کو مزید نقصان پہنچا۔

روس کی وزارت دفاع نے براہ راست حملے کا اعتراف نہیں کیا ہے لیکن اس نے اپنے موقف کا اعادہ کیا ہے کہ یوکرین کا بندرگاہی ڈھانچہ فوجی رسد فراہم کرتا ہے اور اس طرح یہ ایک “جائز ہدف” ہے۔

اوڈیسا کیوں اہمیت رکھتا ہے۔
اوڈیسا، یوکرین کی سب سے بڑی بندرگاہ، ملک کی معیشت اور عالمی غذائی تحفظ کے لیے ایک لائف لائن ہے۔ جنگ سے پہلے، یہ یوکرین کی 70 فیصد سے زیادہ زرعی برآمدات کو سنبھالتا تھا، بشمول گندم اور سورج مکھی کا تیل۔ چونکہ روس نے جولائی 2023 میں بحیرہ اسود کے اناج کے اقدام سے دستبرداری اختیار کی، ماسکو نے منظم طریقے سے اوڈیسا اور چورنومورسک جیسی دیگر بندرگاہوں کو نشانہ بنایا، سائلو، ٹرمینلز اور بحری جہازوں کو تباہ کیا۔ یہ تازہ ترین ہڑتال روس کی حکمت عملی میں دو اہم مقاصد کی نشاندہی کرتی ہے:

معاشی گلا گھونٹنا: یوکرین کی سامان برآمد کرنے کی صلاحیت کو کمزور کرنا اس کی جنگ کے وقت کی معیشت کو کمزور کرتا ہے اور مغربی مالی امداد کو کم کرتا ہے۔

عالمی فائدہ: اناج کی سپلائی میں خلل ڈال کر، روس افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں غذائی عدم تحفظ کو بڑھاتا ہے، وہ خطہ جو یوکرائن کی برآمدات پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں، تاکہ کیف کے بین الاقوامی اتحادیوں پر دباؤ ڈالا جا سکے۔

فوجی سیاق و سباق: بیلسٹک میزائل اور اسکلیشن
کروز میزائل یا ڈرون کے بجائے بیلسٹک میزائل (Iskander-M) کا استعمال حکمت عملی میں تبدیلی کا اشارہ دیتا ہے:

درستگی اور طاقت: بیلسٹک میزائل ہائپرسونک رفتار سے سفر کرتے ہیں اور پیرابولک رفتار کی پیروی کرتے ہیں، جس سے انہیں روکنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اسکندر-ایم 700 کلوگرام تک کا پے لوڈ رکھتا ہے، جو سخت اہداف کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

مغرب کو پیغام: سویلین انفراسٹرکچر کے خلاف جدید ہتھیاروں کی تعیناتی کا مقصد روس کی جانب سے مزید بڑھنے کی تیاری کا اشارہ کرنا ہو سکتا ہے، خاص طور پر جب نیٹو کے اتحادی یوکرین کے لیے فوجی امداد میں اضافے پر بحث کر رہے ہیں۔

یہ حملہ 2023 کے وسط سے اوڈیسا پر تیز حملوں کے انداز کی پیروی کرتا ہے، جس میں جولائی 2023 کی بمباری بھی شامل ہے جس میں یونیسکو کے محفوظ تاریخی مقامات کو نقصان پہنچا اور ہزاروں بے گھر ہوئے۔

بین الاقوامی رد عمل
ہڑتال کی بڑے پیمانے پر مذمت کی گئی ہے:

یوکرین: صدر زیلنسکی نے روس پر “ریاستی دہشت گردی” کا الزام لگایا اور پیٹریاٹ میزائل جیسے فضائی دفاعی نظام کی مغربی ترسیل کو تیز کرنے کا مطالبہ کیا۔

نیٹو/یورپی یونین: اتحاد نے اس حملے کو “بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی” کے طور پر مذمت کی، جب کہ یورپی یونین نے بندرگاہ کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر نو کے لیے 2 بلین ڈالر کی امداد کا وعدہ کیا۔

گلوبل ساؤتھ: مصر، صومالیہ اور بنگلہ دیش جیسے ممالک – یوکرائنی اناج کے اہم درآمد کنندگان – نے خوراک کی قیمتوں پر تباہ کن لہروں کے اثرات سے خبردار کیا۔

دریں اثناء روس کے اتحادیوں بشمول بیلاروس اور شام نے کریملن کے اس دعوے کی بازگشت کی ہے کہ یوکرین کی بندرگاہیں نیٹو کے ہتھیاروں کی ترسیل کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔

انسانی اور قانونی مضمرات

خوراک کی حفاظت: یوکرین کی اناج کی برآمدات دنیا بھر میں اندازاً 400 ملین لوگوں کو خوراک فراہم کرتی ہیں۔ مزید رکاوٹیں یمن اور سوڈان جیسے تنازعات والے علاقوں میں بھوک کو مزید گہرا کر سکتی ہیں۔

جنگی جرائم کے الزامات: شہری بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنانا جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی ہے۔ بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی)، جس نے پہلے ہی پیوٹن کے لیے گرفتاری کا وارنٹ جاری کر رکھا ہے، مبینہ روسی جنگی جرائم کی اپنی جاری تحقیقات کے حصے کے طور پر حملے کی تحقیقات کر سکتی ہے۔

آگے کیا آتا ہے؟

فوجی ردعمل: یوکرین ممکنہ طور پر روسی بحیرہ اسود کے بحری بیڑے کے اثاثوں پر ڈرون اور بحری حملوں کو تیز کرے گا، جیسا کہ کریمیا پر حالیہ حملوں میں دیکھا گیا ہے۔

سفارتی حرکتیں: ترکی، جو اصل اناج کے معاہدے کا ایک دلال ہے، ثالثی کی کوششوں کی تجدید کر سکتا ہے، حالانکہ کامیابی کا انحصار پابندیوں سے نجات کے ماسکو کے مطالبات پر ہے۔

عالمی یکجہتی: یہ حملہ دریائے ڈینیوب یا یورپی یونین کے ریل نیٹ ورک کے ذریعے متبادل برآمدی راستے قائم کرنے کے لیے یوکرین کی بولی کے لیے مغربی حمایت حاصل کر سکتا ہے۔

نتیجہ
اوڈیسا کی بندرگاہ پر میزائل حملہ مقامی میدان جنگ کی تازہ کاری سے زیادہ ہے — یہ جنگ کے عالمی اثرات کی واضح یاد دہانی ہے۔ چونکہ روس خوراک کی سپلائی کو ہتھیار بنا رہا ہے اور شہری مراکز پر اپنے حملوں کو بڑھا رہا ہے، بین الاقوامی برادری کو یوکرین کی خودمختاری کے تحفظ اور انسانی تباہی کو کم کرنے کے لیے بڑھتے ہوئے دباؤ کا سامنا ہے۔ یوکرین کے لیے، اوڈیسا کا دفاع صرف علاقائی سالمیت کے بارے میں نہیں ہے۔ یہ ایک خودمختار ریاست کے طور پر اپنے مستقبل کی حفاظت اور دنیا کے لیے ایک روٹی کی ٹوکری کے بارے میں ہے۔

باخبر رہیں: قابل اعتماد ذرائع جیسے رائٹرز، بی بی سی، اور اقوام متحدہ کی آفیشل اپ ڈیٹس کو اس کھلتے ہوئے بحران پر پیش رفت کے لیے فالو کریں۔