کیا امریکہ نے ایران کے ایٹمی ہتھیار کو کامیابی سے تباہ کر دیا ہے؟

ایران کے ایٹمی ہتھیار b2 bomber

کافی لوگ آج یہ سوال کر رہے ہیں: کیا امریکہ نے ایران کا جوہری پروگرام واقعی مکمل تباہ کر دیا ہے؟ تو بطور ایک پی ایچ ڈی فزکس اور سائنس کا طلب علم، مجھے لگا کہ یہ بات سادہ اور عام فہم انداز میں سب کو

کیا امریکہ نے ایران کے ایٹمی ہتھیار کو کامیابی سے تباہ کر دیا ہے؟
ایران کے ایٹمی ہتھیار
سمجھانی چاہیے۔ دیکھیں… نیوکلیئر پروگرام کوئی چھوٹا موٹا پروجیکٹ نہیں ہوتا، یہ کوئی لیب کا کمرہ نہیں، اور نہ ہی کوئی بریف کیس ہے کہ خطرہ محسوس ہو تو اٹھا کر کہیں اور رکھ دیا جائے۔ یہ ایک پورا سسٹم ہوتا ہے۔ ہزاروں سینٹری فیوجز، میلوں لمبی پائپنگ، حساس درجہ حرارت اور دباؤ پر چلنے والے کنٹرول سسٹم، خاص قسم کی بجلی کی فراہمی، اور ایک ایسا ماحول جو عام فیکٹری میں نہیں بنایا جا سکتا۔

امریکہ نے جن جگہوں پر حملہ کیا، جیسے نطنز اور فردو، وہ عام عمارتیں نہیں تھیں، بلکہ ایسی تنصیبات تھیں جہاں ایران یورینیم کو طاقتور بناتا ہے۔ یہ مراکز زمین کے اندر، پہاڑوں کے نیچے، سخت چٹانوں میں چھپائے گئے تھے تاکہ کسی حملے کی صورت میں بھی آسانی سے تباہ نہ ہو سکیں۔ لوگ کہتے ہیں، “امریکہ نے بنکر بسٹر بم پھینکے ہیں، جو زمین کے اندر 50-60 میٹر تک جا کے دھماکہ کر سکتے ہیں!” ہاں، ایسی ٹیکنالوجی ہے، لیکن ایک یا دو بم پوری تنصیب کو تباہ نہیں کر سکتے خاص طور پر جب وہ جگہ پہلے سے حفاظتی لحاظ سے مضبوط بنائی گئی ہو۔ سیٹلائٹ کی تصویریں اور عالمی رپورٹس بھی یہی بتا رہی ہیں کہ صرف اوپر کی عمارتیں متاثر ہوئیں، اصل مشینری، جو زمین کے اندر ہے، وہ ابھی بھی اپنی جگہ پر موجود ہے۔ اور رہی بات ریڈیایشن یعنی طابکاری کی؟ تو بھائی، جب وہاں کوئی ایکٹیو جوہری ری ایکٹر ہی نہیں تھا، نہ کوئی فیول راڈز، نہ کوئی زنجیری تعامل تو تابکاری (ریڈیایشن) کہاں سے پھیلتی؟ تو کیا ایران کا نیوکلیئر پروگرام ختم ہو گیا؟ نہیں۔ نہ ختم ہوا ہے، نہ اتنی آسانی سے ختم ہو گا۔ ایران کے پاس ابھی بھی: یورینیم ہے، سینٹری فیوجز ہیں، سائنس دان موجود ہیں، سسٹم کا ڈیزائن ہے، اور سب سے بڑھ کر عزم اور وقت ہے۔ اور یہ پانچ چیزیں کافی ہوتی ہیں کسی بھی نیوکلیئر پروگرام کو دوبارہ کھڑا کرنے کے لیے۔

اگر ایران کے کسی ایٹمی پلانٹ کو مکمل طور پر تباہ کر دیا جائے، تو اس کے اثرات صرف ایران تک محدود نہیں رہیں گے۔ دھماکے کی شدت، ہوا کی سمت اور موسم کے لحاظ سے تابکاری کے اثرات عراق، افغانستان، پاکستان، خلیجی ممالک (سعودی عرب، کویت، بحرین، قطر، یو اے ای)، ترکی اور وسطی ایشیائی ممالک (جیسے ترکمانستان، ازبکستان) تک پہنچ سکتے ہیں۔ فضا میں موجود تابکار ذرات ہزاروں کلومیٹر دور تک بھی جا سکتے ہیں، اور اگر تابکاری پانی میں شامل ہو جائے تو سمندر کے راستے اس کا دائرہ اور بھی وسیع ہو سکتا ہے۔ چرنوبل اور فوکوشیما جیسے واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ ایٹمی تباہی صرف ایک قوم یا ایک سرحد تک محدود نہیں رہتی بلکہ یہ پوری دنیا کے لیے خطرہ بن جاتی ہے۔ اس لیے جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ “سب کچھ ختم ہو گیا” تو ان سے بس اتنا کہنا ہے: یہ فلم نہیں، یہ نیو کلئیر فزکس ہے۔ زیادہ سے زیادہ شئیر کریں تاکہ عام عوام کو بھی سادہ الفاظ میں یہ بات سمجھ آ جائے۔ تحریر ڈاکٹر ملک کاشف مسعود

ایران کے ایٹمی ہتھیار
کیا امریکہ نے ایران کے ایٹمی ہتھیار کو کامیابی سے تباہ کر دیا ہے؟

امریکہ نے جن جگہوں پر حملہ کیا، جیسے نطنز اور فردو، وہ عام عمارتیں نہیں تھیں، بلکہ ایسی تنصیبات تھیں جہاں ایران یورینیم کو طاقتور بناتا ہے۔ یہ مراکز زمین کے اندر، پہاڑوں کے نیچے، سخت چٹانوں میں چھپائے گئے تھے تاکہ کسی حملے کی صورت میں بھی آسانی سے تباہ نہ ہو سکیں۔ لوگ کہتے ہیں، “امریکہ نے بنکر بسٹر بم پھینکے ہیں، جو زمین کے اندر 50-60 میٹر تک جا کے دھماکہ کر سکتے ہیں!” ہاں، ایسی ٹیکنالوجی ہے، لیکن ایک یا دو بم پوری تنصیب کو تباہ نہیں کر سکتے خاص طور پر جب وہ جگہ پہلے سے حفاظتی لحاظ سے مضبوط بنائی گئی ہو۔ سیٹلائٹ کی تصویریں اور عالمی رپورٹس بھی یہی بتا رہی ہیں کہ صرف اوپر کی عمارتیں متاثر ہوئیں، اصل مشینری، جو زمین کے اندر ہے، وہ ابھی بھی اپنی جگہ پر موجود ہے۔ اور رہی بات ریڈیایشن یعنی طابکاری کی؟ تو بھائی، جب وہاں کوئی ایکٹیو جوہری ری ایکٹر ہی نہیں تھا، نہ کوئی فیول راڈز، نہ کوئی زنجیری تعامل تو تابکاری (ریڈیایشن) کہاں سے پھیلتی؟ تو کیا ایران کا نیوکلیئر پروگرام ختم ہو گیا؟ نہیں۔ نہ ختم ہوا ہے، نہ اتنی آسانی سے ختم ہو گا۔ ایران کے پاس ابھی بھی: یورینیم ہے، سینٹری فیوجز ہیں، سائنس دان موجود ہیں، سسٹم کا ڈیزائن ہے، اور سب سے بڑھ کر عزم اور وقت ہے۔ اور یہ پانچ چیزیں کافی ہوتی ہیں کسی بھی نیوکلیئر پروگرام کو دوبارہ کھڑا کرنے کے لیے۔

کیا امریکہ نے ایران کے ایٹمی ہتھیار کو کامیابی سے تباہ کر دیا ہے؟

اگر ایران کے کسی ایٹمی پلانٹ کو مکمل طور پر تباہ کر دیا جائے، تو اس کے اثرات صرف ایران تک محدود نہیں رہیں گے۔ دھماکے کی شدت، ہوا کی سمت اور موسم کے لحاظ سے تابکاری کے اثرات عراق، افغانستان، پاکستان، خلیجی ممالک (سعودی عرب، کویت، بحرین، قطر، یو اے ای)، ترکی اور وسطی ایشیائی ممالک (جیسے ترکمانستان، ازبکستان) تک پہنچ سکتے ہیں۔ فضا میں موجود تابکار ذرات ہزاروں کلومیٹر دور تک بھی جا سکتے ہیں، اور اگر تابکاری پانی میں شامل ہو جائے تو سمندر کے راستے اس کا دائرہ اور بھی وسیع ہو سکتا ہے۔ چرنوبل اور فوکوشیما جیسے واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ ایٹمی تباہی صرف ایک قوم یا ایک سرحد تک محدود نہیں رہتی بلکہ یہ پوری دنیا کے لیے خطرہ بن جاتی ہے۔ اس لیے جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ “سب کچھ ختم ہو گیا” تو ان سے بس اتنا کہنا ہے: یہ فلم نہیں، یہ نیو کلئیر فزکس ہے۔ زیادہ سے زیادہ شئیر کریں تاکہ عام عوام کو بھی سادہ الفاظ میں یہ بات سمجھ آ جائے۔ تحریر ڈاکٹر ملک کاشف مسعود

کیا امریکہ نے ایران کے ایٹمی ہتھیار کو کامیابی سے تباہ کر دیا ہے؟

اسرائیلی میڈیا: اسلامی جمہوریہ کے ایٹمی پروگرام کا ایک ایجنٹ تہران میں ڈرون حملے میں مارا گیا۔

اسرائیلی میڈیا: اسلامی جمہوریہ کے ایٹمی پروگرام کا ایک ایجنٹ تہران میں ڈرون حملے میں مارا گیا۔

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں اسلامی جمہوریہ کے وزیر خارجہ نے ایران کی ایٹمی تنصیبات پر اسرائیل کے حملے کو جنگی جرم قرار دیا اور کہا کہ اسلامی جمہوریہ کو سفارتی عمل کے درمیان نشانہ بنایا گیا۔
اسرائیلی میڈیا: اسلامی جمہوریہ کے ایٹمی پروگرام کا ایک ایجنٹ تہران میں ڈرون حملے میں مارا گیا۔

**تاریخ:** 29 اکتوبر 2024 (نوٹ: یہ واقعہ اپریل 2024 میں پیش آیا)

**تعارف:** تہران میں حالیہ ڈرون حملے کے نتیجے میں ایک ایرانی انجینئر مہدی ہوشیارنیزاد کی موت واقع ہوئی ہے، جس سے اس کے کردار اور واقعے کی نوعیت کے بارے میں متضاد داستانیں جنم لے رہی ہیں۔ جب کہ ایران کے سرکاری میڈیا نے ایک صنعتی حادثے کی اطلاع دی، مغربی اور اسرائیلی ذرائع نے الزام لگایا کہ وہ ایران کے جوہری پروگرام میں ایک اہم شخصیت تھا جسے ایک قاتلانہ کارروائی کا نشانہ بنایا گیا۔

**واقعہ:**
6 اپریل 2024 کو تہران کے مشرقی شہریار ضلع میں ایک چھوٹے ڈرون نے ایک عمارت کو نشانہ بنایا۔ ایرانی سرکاری میڈیا بشمول سرکاری IRNA نیوز ایجنسی نے مہدی ہوشیارنیزاد کی موت کی تصدیق کی ہے، جس کی شناخت ایرانی وزارت دفاع کے لیے کام کرنے والے انجینئر کے طور پر کی گئی ہے۔ ابتدائی ایرانی رپورٹس میں اس واقعہ کو ایک **”صنعتی حادثہ”** قرار دیا گیا ہے جو وزارت سے وابستہ ایک تحقیقی مرکز میں کواڈ کاپٹر ڈرون سسٹم کے ٹیسٹ کے دوران پیش آیا۔

**الزام:**
ایران کے سرکاری اکاؤنٹ کے برعکس، متعدد مغربی اور اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے انٹیلی جنس ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا کہ حوثی نژاد کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا۔ **نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ، اور دی ٹائمز آف لندن نے نامعلوم امریکی اور اسرائیلی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے اطلاع دی ہے کہ یہ حملہ ایک اسرائیلی آپریشن تھا۔** ان ذرائع نے الزام لگایا کہ ہوشیارنیجاد محض ایک دفاعی انجینئر نہیں تھا بلکہ **ایران کے جوہری پروگرام میں ملوث ایک اہم شخصیت تھا**، خاص طور پر بغیر پائلٹ کی فضائی گاڑیوں کی تیاری سے منسلک تھا۔ انوویشن اینڈ ریسرچ (SPND)، ایران کے ماضی کے جوہری ہتھیاروں کی تحقیق میں اس کے کردار کے لیے امریکہ کی طرف سے منظور شدہ ادارہ۔

*** ماخذ:** “دی نیویارک ٹائمز نے 19 اپریل 2024 کو ‘تین سینئر اسرائیلی عہدیداروں’ کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا کہ اسرائیل نے یہ حملہ کیا تھا اور ہوشیارنیزاد ایران کے جوہری پروگرام کے اندر ‘خفیہ منصوبے کا انچارج’ تھا جس میں کواڈ کاپٹروں کی تیاری شامل تھی۔” (NYT: [ایران کا کہنا ہے کہ ڈرون حملے میں انجینئر مارا گیا، لیکن اسرائیل اسے جوہری کام قرار دیتا ہے](https://www.nytimes.com/2024/04/19/world/middleeast/iran-israel-drone-strike-nuclear.html))
* **ماخذ:** “واشنگٹن پوسٹ نے اسی طرح 19 اپریل کو ‘امریکی اور اسرائیلی حکام’ کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا کہ اسرائیل نے یہ حملہ کیا تھا اور یہ کہ ہدف ‘ایران کے جوہری پروگرام کی ایک اہم شخصیت تھی۔’ کہنا](https://www.washingtonpost.com/national-security/2024/04/19/israel-iran-nuclear-strike/))
* **ذریعہ:** “دی ٹائمز آف لندن نے بھی اسرائیلی دعوے کی خبر دی، جس میں ہوشیارنیجاد کو ایس پی این ڈی سے جوڑا گیا۔” (دی ٹائمز: [اسرائیل نے اعلیٰ ایرانی جوہری سائنسدان کو ڈرون حملے میں ہلاک کر دیا]

**ایران کا جواب:**
ایرانی حکام نے جوہری پروگرام سے مبینہ تعلق کی سختی سے تردید کی۔ وزارتِ دفاع نے ایک بیان جاری کیا جس میں ہوشیارنیزاد کو “دفاعی صنعت کے ماہر” کے طور پر سوگ کیا گیا اور اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ یہ واقعہ دفاعی نظام پر معمول کی تحقیق اور ترقی کی سرگرمیوں کے دوران ایک حادثہ تھا۔ انہوں نے مغربی/اسرائیلی رپورٹس کو “بے بنیاد الزامات” اور ایران کے خلاف “نفسیاتی جنگ” کا حصہ قرار دے کر مسترد کر دیا۔

**مہدی ہوشیارنیزاد کون تھا؟**
Hoshiarnejad کے بارے میں عوامی معلومات محدود ہیں۔ ایران کے سرکاری میڈیا نے انہیں دفاعی انجینئر بتایا۔ انٹیلی جنس تشخیص پر مبنی مغربی رپورٹس نے انہیں SPND کے اندر ایک سینئر شخصیت کے طور پر پیش کیا، جس میں جدید ڈرون ٹیکنالوجی کی ترقی پر توجہ مرکوز کی گئی، ممکنہ طور پر جوہری سلامتی یا ترسیل کے نظام سے متعلق ایپلی کیشنز کے لیے۔ جوہری سے متعلق کسی بھی پروجیکٹ میں اس کا صحیح کردار IAEA جیسے بین الاقوامی اداروں کے ذریعہ عوامی طور پر غیر مصدقہ ہے۔

**سیاق و سباق:**
یہ واقعہ ایک دیرینہ نمونہ کے مطابق ہے:
1. **شیڈو وار:** اسرائیل اور ایران برسوں سے ایک خفیہ تنازعہ میں مصروف ہیں، جس میں سائبر حملے، قتل اور تخریب کاری شامل ہے، جو اکثر ایران کے جوہری اور میزائل پروگراموں کو نشانہ بناتے ہیں۔
2. **ایٹمی سائنسدانوں کا قتل:** گزشتہ دہائی کے دوران متعدد ایرانی جوہری سائنسدانوں کو قتل کیا گیا ہے (مثلاً، 2020 میں محسن فخر زادہ)، جس کا بڑے پیمانے پر اسرائیل کو ذمہ دار سمجھا جاتا ہے، حالانکہ وہ اس طرح کی کارروائیوں کی شاذ و نادر ہی تصدیق کرتا ہے۔
3. **ڈرون وارفیئر:** دونوں ممالک فعال طور پر ڈرون تیار اور تعینات کرتے ہیں، UAV ٹیکنالوجی اور ماہرین کو اسٹریٹجک اہداف بناتے ہیں۔

**موجودہ صورتحال:**
* کسی گروپ یا ریاست نے سرکاری طور پر حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔
* اسرائیل اس طرح کی کارروائیوں میں ملوث ہونے کی نہ تو تصدیق اور نہ ہی تردید کی اپنی دیرینہ پالیسی پر قائم ہے۔
* انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (IAEA) نے عوامی طور پر جوہری پروگرام میں ہوشیارنیزاد کے مبینہ کردار پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
* ایرانی تحقیقات نے سرکاری طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ ایک حادثہ تھا۔

**نتیجہ:**
مہدی حوثیہ کی وفات

یوکرین اور روس سب سے بڑے قیدیوں کے تبادلے کے لیے تیار ہیں لیکن تفصیلات بہت کم ہیں۔

یوکرین اور روس سب سے بڑے قیدیوں کے تبادلے کے لیے تیار ہیں لیکن تفصیلات بہت کم ہیں۔

روس کے زیر حراست یوکرین کے اہل خانہ اپنے پیاروں کی خبر کے منتظر ہیں (فائل تصویر)
روس اور یوکرین جمعہ کو قیدیوں کے ایک بڑے تبادلے میں حصہ لینے کے لیے تیار تھے، جسے 2022 میں مکمل روسی حملے کے آغاز کے بعد سے سب سے بڑا قرار دیا گیا ہے۔

ایک ہفتہ قبل استنبول میں ہونے والے بے نتیجہ امن مذاکرات کے دوران دونوں ممالک کے حکام نے 1000 جنگی قیدیوں کے تبادلے پر اتفاق کیا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے قبل ازیں اپنے Truth Social پلیٹ فارم پر اپنی مبارکباد پوسٹ کی تھی، اور دعویٰ کیا تھا کہ تبادلہ مکمل ہو گیا ہے اور یہ کہ “اس سے کچھ بڑا ہو سکتا ہے؟؟؟”۔

تاہم، دونوں طرف سے کوئی تصدیق نہیں ہوئی، اور یوکرین کے فوجی ذرائع نے خبر رساں اداروں کو صرف اتنا بتایا کہ یہ عمل جاری ہے۔

غیر مصدقہ اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ یہ تبادلہ بیلاروس کے ساتھ یوکرائنی سرحد کے پار تین دنوں میں ہو سکتا ہے۔

تبادلے پر ترکی میں ایک ہفتہ قبل اتفاق ہوا تھا، جب یوکرین اور روس کے نچلے درجے کے وفود مارچ 2022 کے بعد پہلی بار آمنے سامنے آئے، حالانکہ یہ ملاقات صرف دو گھنٹے جاری رہی اور جنگ بندی کی جانب کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔

روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے جمعے کے روز کہا کہ بات چیت کا دوسرا دور ہوگا، جب ماسکو یوکرائنی فریق کو ایک “میمورنڈم” دے گا۔

ٹرمپ نے اس ہفتے کے شروع میں روسی صدر ولادیمیر پوتن کے ساتھ دو گھنٹے کی فون کال کے بعد کہا تھا کہ روس اور یوکرین “فوری طور پر” جنگ بندی اور جنگ کے خاتمے کے لیے بات چیت شروع کر دیں گے۔

تب سے، پوتن کے یوکرائنی ہم منصب ولادیمیر زیلنسکی نے ان پر جنگ جاری رکھنے کے لیے “وقت خریدنے کی کوشش” کا الزام لگایا ہے۔

اٹلی کی وزیر اعظم جارجیا میلونی نے ٹرمپ کی اس تجویز کی حمایت کی ہے کہ ویٹیکن جنگ بندی کے لیے مذاکرات میں ثالثی کر سکتا ہے، لیکن لاوروف نے کہا کہ یہ “بہت زیادہ حقیقت پسندانہ آپشن نہیں ہے”۔

روسی وزیر خارجہ نے ایک بے بنیاد دعوے کو دہرایا کہ زیلنسکی ایک جائز رہنما نہیں تھے اور تجویز پیش کی کہ مستقبل کے ممکنہ امن معاہدے پر دستخط ہونے سے پہلے نئے انتخابات کرائے جائیں۔

یہ پوچھے جانے پر کہ کیا روس معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے تیار ہے، لاوروف نے کہا: “پہلے ہمیں ایک معاہدہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اور جب اس پر اتفاق ہو جائے گا، تب ہی ہم فیصلہ کریں گے۔ لیکن جیسا کہ صدر پوٹن کئی بار کہہ چکے ہیں، صدر زیلنسکی کے پاس قانونی حیثیت نہیں ہے۔”

انہوں نے کہا کہ ایک معاہدے کے تیار ہونے کے بعد، روس “دیکھے گا کہ یوکرین میں اقتدار میں رہنے والوں میں سے کون قانونی حیثیت رکھتا ہے”۔

“اب کلیدی کام ایک امن معاہدہ تیار کرنا ہے جو قابل بھروسہ ہو اور کسی کے لیے سلامتی کو خطرہ پیدا کیے بغیر ایک طویل مدتی، مستحکم اور منصفانہ امن فراہم کرے۔ ہمارے معاملے میں، ہم روس کے ساتھ فکر مند ہیں۔”

یوکرین اور روس براہ راست بات چیت میں بہت دور ہیں، لیکن قیدیوں کے تبادلے پر اتفاق ہوا۔
یوکرین میں مارے گئے بم کے ماہر کو وطن واپس لایا جائے گا۔
اٹلی کی میلونی مدد کے لیے تیار ہے اگر ویٹیکن ٹرمپ کے جنگی ثالثی کے منصوبے سے اتفاق کرتا ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے قبل ازیں اپنے Truth Social پلیٹ فارم پر اپنی مبارکباد پوسٹ کی تھی، اور دعویٰ کیا تھا کہ تبادلہ مکمل ہو گیا ہے اور یہ کہ “اس سے کچھ بڑا ہو سکتا ہے؟؟؟”۔

تاہم، دونوں طرف سے کوئی تصدیق نہیں ہوئی، اور یوکرین کے فوجی ذرائع نے خبر رساں اداروں کو صرف اتنا بتایا کہ یہ عمل جاری ہے۔

غیر مصدقہ اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ یہ تبادلہ بیلاروس کے ساتھ یوکرائنی سرحد کے پار تین دنوں میں ہو سکتا ہے۔

تبادلے پر ترکی میں ایک ہفتہ قبل اتفاق ہوا تھا، جب یوکرین اور روس کے نچلے درجے کے وفود مارچ 2022 کے بعد پہلی بار آمنے سامنے آئے، حالانکہ یہ ملاقات صرف دو گھنٹے جاری رہی اور جنگ بندی کی جانب کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔

روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے جمعے کے روز کہا کہ بات چیت کا دوسرا دور ہوگا، جب ماسکو یوکرائنی فریق کو ایک “میمورنڈم” دے گا۔

ٹرمپ نے اس ہفتے کے شروع میں روسی صدر ولادیمیر پوتن کے ساتھ دو گھنٹے کی فون کال کے بعد کہا تھا کہ روس اور یوکرین “فوری طور پر” جنگ بندی اور جنگ کے خاتمے کے لیے بات چیت شروع کر دیں گے۔

تب سے، پوتن کے یوکرائنی ہم منصب ولادیمیر زیلنسکی نے ان پر جنگ جاری رکھنے کے لیے “وقت خریدنے کی کوشش” کا الزام لگایا ہے۔

اٹلی کی وزیر اعظم جارجیا میلونی نے ٹرمپ کی اس تجویز کی حمایت کی ہے کہ ویٹیکن جنگ بندی کے لیے مذاکرات میں ثالثی کر سکتا ہے، لیکن لاوروف نے کہا کہ یہ “بہت زیادہ حقیقت پسندانہ آپشن نہیں ہے”۔

روسی وزیر خارجہ نے ایک بے بنیاد دعوے کو دہرایا کہ زیلنسکی ایک جائز رہنما نہیں تھے اور تجویز پیش کی کہ مستقبل کے ممکنہ امن معاہدے پر دستخط ہونے سے پہلے نئے انتخابات کرائے جائیں۔

یہ پوچھے جانے پر کہ کیا روس معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے تیار ہے، لاوروف نے کہا: “پہلے ہمیں ایک معاہدہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اور جب اس پر اتفاق ہو جائے گا، تب ہی ہم فیصلہ کریں گے۔ لیکن جیسا کہ صدر پوٹن کئی بار کہہ چکے ہیں، صدر زیلنسکی کے پاس قانونی حیثیت نہیں ہے۔”

انہوں نے کہا کہ ایک معاہدے کے تیار ہونے کے بعد، روس “دیکھے گا کہ یوکرین میں اقتدار میں رہنے والوں میں سے کون قانونی حیثیت رکھتا ہے”۔

“اب کلیدی کام ایک امن معاہدہ تیار کرنا ہے جو قابل بھروسہ ہو اور کسی کے لیے سلامتی کو خطرہ پیدا کیے بغیر ایک طویل مدتی، مستحکم اور منصفانہ امن فراہم کرے۔ ہمارے معاملے میں، ہم روس کے ساتھ فکر مند ہیں۔”

یوکرین اور روس براہ راست بات چیت میں بہت دور ہیں، لیکن قیدیوں کے تبادلے پر اتفاق ہوا۔
یوکرین میں مارے گئے بم کے ماہر کو وطن واپس لایا جائے گا۔
اٹلی کی میلونی مدد کے لیے تیار ہے اگر ویٹیکن ٹرمپ کے جنگی ثالثی کے منصوبے سے اتفاق کرتا ہے۔

بھارت پاکستان پر دوبارہ حملہ کرے گا کیونکہ ہندو سچ نہیں بول سکتے

بھارت پاکستان پر دوبارہ حملہ کرے گا کیونکہ ہندو سچ نہیں بول سکتے

بھارت نے جنگ بندی کے بعد توقف کیا بھارت پاکستان پر دوبارہ حملہ کرے گا نہ صرف سیکیورٹی فورسز حتی کہ شہریوں پر

 

میں یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہتا ہوں، امریکی محکمہ خارجہ، محکمہ دفاع اور پینٹاگون کے تین مستند شخصیات سے مشورہ کر کے، جو پاک بھارت تنازعہ پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ان کا متفقہ جائزہ یہ ہے کہ موجودہ جنگ بندی ہندوستان کی طرف سے ایک اسٹریٹجک توقف کی نمائندگی کرتی ہے، جس کا مقصد اہداف کو بحال کرنا، دوبارہ منظم کرنا، اور اہداف کا دوبارہ جائزہ لینا ہے، جو ہندوستانی فوجی نظریے میں تبدیلی کی عکاسی کرتا ہے۔ جب میں نے 20 دن کی ٹائم لائن تجویز کی، تو انہوں نے متفقہ طور پر اتفاق نہیں کیا، تقریباً دو ہفتے یا اس سے کم مدت کا تخمینہ لگایا، اور نوٹ کیا کہ ہندوستان کی جانب سے پاکستان کے پچھلے فضائی اڈوں کو سٹریٹجک نشانہ بنانا عدم تحفظ اور ان کمزوریوں کا دوبارہ فائدہ اٹھانے کے ارادے کی نشاندہی کرتا ہے۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کو اس بحران کو مؤثر طریقے سے چلانے کے لیے واضح تزویراتی دور اندیشی اور اچھی طرح سے طے شدہ مقاصد کی ضرورت ہے۔ یہ توقف، وہ احتیاط کرتے ہیں، ہندوستان کے حساب سے بڑھنے کا پیش خیمہ ہے، جو پاکستان کی پختہ تیاری کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔

عسکری حکمت عملی، بنیادی طور پر، ایک فکری اور آپریشنل نظم و ضبط ہے جو نہ صرف اپنی افواج پر مہارت رکھتا ہے بلکہ مخالف کی ذہنیت، ارادوں اور صلاحیتوں کی گہری سمجھ کا بھی مطالبہ کرتا ہے۔ مخالف کے نقطہ نظر سے سوچنے کی صلاحیت، ان کے فیصلوں کا اندازہ لگانا، ان کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانا، اور ان کی طاقتوں کا مقابلہ کرنا حکمت عملی کی کامیابی کی بنیاد ہے۔ دشمن سے ہمیشہ آگے رہنے کی ضرورت کے ساتھ، یہ نقطہ نظر جنگ کے پیچیدہ، اونچے داؤ والے میدان میں غلبہ کو یقینی بناتا ہے۔ تاریخی مثالوں، عصری فوجی طریقوں، اور مئی 2025 کے حالیہ ہندوستان-پاکستان کے چار روزہ تنازعے پر روشنی ڈالتے ہوئے، یہ تجزیہ واضح کرتا ہے کہ کس طرح مخالف سوچ کی توقع کرنا اور اسٹریٹجک برتری کو برقرار رکھنا موثر فوجی حکمت عملی کے لیے لازمی ہے۔

دشمن پر قابو پانے کے لیے، ایک حکمت عملی کے ماہر کو اپنے نقطہ نظر میں رہنا چاہیے، اپنے مقاصد، رکاوٹوں اور ممکنہ طور پر عمل کے طریقوں کو سمجھنا چاہیے۔ ہمدردی سے دور اس علمی ہمدردی میں مخالف کی ثقافت، تاریخ اور فیصلہ سازی کے عمل کا سخت تجزیہ شامل ہے۔ مثال کے طور پر، سرد جنگ کے دوران، امریکی حکمت عملی سازوں نے سوویت فوجی نظریے اور سیاسی نظریے کا مطالعہ کیا تاکہ امریکی چالوں کے ردعمل کی پیشین گوئی کی جا سکے، جس سے باہمی طور پر یقینی تباہی کے ذریعے ڈیٹرنس کو ممکن بنایا جا سکے۔ 2025 کے ہندوستان-پاکستان تنازعہ میں، ہندوستان کے آپریشن سندھ نے ممکنہ طور پر پاکستان کے غیر متناسب جنگ پر انحصار کی توقع کی تھی، جس میں مبینہ طور پر دہشت گردی کے بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنایا گیا تھا تاکہ پاکستان کی پراکسی حملوں کو سپانسر کرنے کی صلاحیت کو روکا جا سکے۔ مخالف کے سٹریٹجک حساب کتاب کی ماڈلنگ کرتے ہوئے، جیسے کہ پاکستان کو جوہری کشیدگی سے گریز کرتے ہوئے گھریلو جواز کو برقرار رکھنے کی ضرورت ہے، ہندوستان کا مقصد ایک قابل انتظام ردعمل کو بھڑکانے کے لیے اپنے حملوں کی پیمائش کرنا تھا۔ یہ واضح کرتا ہے کہ کس طرح دشمن کے نقطہ نظر سے سوچنا کمانڈروں کو میدان جنگ کی شکل دینے کی اجازت دیتا ہے، مخالفوں کو ممکنہ یا نقصان دہ پوزیشنوں پر مجبور کرتا ہے۔

ان بصیرت سے فائدہ اٹھانے کے لیے فعال اقدامات کے ساتھ جوڑ بنانے پر مخالف سوچ کا اندازہ لگانا صرف موثر ہے۔ اس کے لیے نہ صرف انٹیلی جنس جمع کرنے کی ضرورت ہوتی ہے — سگنلز، انسانی ذرائع، یا سائبر جاسوسی — بلکہ دشمن کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے سے پہلے کام کرنے کی چستی بھی۔ 1967 کی چھ روزہ جنگ میں اسرائیل کی قبل از وقت ہڑتال، جو انٹیلی جنس کی بنیاد پر عرب اتحاد کے متحرک ہونے کی پیش گوئی کرتی ہے، اس کی مثال ہے، دشمن کی فضائی افواج کو شروع کرنے سے پہلے ہی معذور کر دیتی ہے۔ اسی طرح، مئی 2025 میں، پاکستان کے فضائی دفاع کو دبانے کے لیے بھارت کا اسرائیلی ساختہ ہاروپ ڈرون کا استعمال HQ-9P جیسے سسٹمز پر پاکستان کے انحصار کے بارے میں دور اندیشی کی نشاندہی کرتا ہے، جس سے بھارت اہم اثاثوں کو جلد بے اثر کر سکتا ہے۔ آگے رہنا مسلسل جدت کا تقاضا کرتا ہے، جیسا کہ جدید ٹیکنالوجی یا غیر روایتی حربوں کو اپنانا، تاکہ مخالف کے آپریشنل ٹیمپو کو روکا جا سکے۔ پیشن گوئی کرنے والی بصیرت پر فیصلہ کن طور پر عمل کرتے ہوئے، ایک فوج مصروفیت کی شرائط کا حکم دے سکتی ہے، دشمن کو رد عمل اور غیر متوازن بناتی ہے۔

دشمن سے آگے رہنے کے لیے، فوجی حکمت عملی کو موافقت اور دھوکہ دہی کو ترجیح دینی چاہیے، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ دشمن کی صلاحیتوں کے بارے میں سمجھنا فرسودہ یا گمراہ کن ہے۔ 1980 کی دہائی میں امریکی فوج کی اسٹیلتھ ٹیکنالوجی کی ترقی، F-117 کے آغاز تک خفیہ رکھی گئی، جس نے مخالفین کو اپنی فضائی دفاعی حکمت عملیوں کو دوبارہ ترتیب دینے پر مجبور کیا۔ ہندوستان اور پاکستان کے تناظر میں، ہندوستانی جیٹ طیاروں اور ڈرونوں کو گرانے کی پاکستانی فضائیہ ایک موافق ردعمل کی نشاندہی کرتی ہے، جس کی اطلاع ہندوستان کے رافیل جیٹ طیاروں کی تعیناتی کے پیشگی مطالعہ کے ذریعہ دی گئی تھی۔ دھوکہ دہی، جیسا کہ پاکستانی ریڈار سسٹم کو بے نقاب کرنے کے لیے بھارت کی جانب سے ڈیکوائی ڈرونز کا استعمال، مزید مثال دیتا ہے کہ کس طرح آگے رہنے میں مخالف کے تصورات کو توڑنا شامل ہے۔ مسلسل تربیت، منظر نامے کی منصوبہ بندی، اور تحقیق میں سرمایہ کاری اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ فوج اپنے حریف کے مقابلے میں تیزی سے تیار ہوتی ہے، جب کہ دھوکہ دہی غیر یقینی صورتحال پیدا کرتی ہے، دشمن کے اپنے منصوبوں پر اعتماد کو ختم کرتی ہے۔

بھارت کے آپریشن سندھور، جو 6 مئی 2025 کو شروع کیے گئے تھے، نے پاکستان اور آزاد کشمیر میں سویلین انفراسٹرکچر کو نشانہ بنانے والے میزائل اور ڈرون حملے کیے، جس کے نتیجے میں شہریوں سمیت کم از کم 31 افراد ہلاک ہوئے۔ یہ جواب “اسرائیلی پلے بک” کے پہلوؤں کی عکاسی کرتا ہے، خاص طور پر اس کے قبل از وقت حملوں، جدید ٹیکنالوجی، اور بیانیہ کنٹرول کے استعمال میں۔ بھارت کی طرف سے اسرائیل کے ساختہ ہاروپ اور ہیرون مارک-2 ڈرونز کی تعیناتی، اسکلپ کروز میزائلوں کے ساتھ، خطرات کو بے اثر کرنے کے لیے اسرائیل کے درست ہتھیاروں پر انحصار کی عکاسی کرتی ہے، جیسا کہ غزہ کی کارروائیوں میں دیکھا گیا ہے۔ اس کے باوجود، بھارت اور پاکستان کے درمیان جوہری ہتھیاروں سے لیس دشمنی اسرائیل کے تنازعات میں غیر موجود ایک خطرناک جہت کو متعارف کراتی ہے، جس سے تشبیہ نامکمل ہے۔

دشمن کے فضائی دفاع کو دبانے اور میڈیا فریمنگ کے ذریعے ہندوستان کی حکمت عملی کی مزید بازگشت اسرائیل کی ہے۔ پاکستان کے فضائی دفاعی نظام جیسے کہ چینی ساختہ HQ-9P کو بے نقاب کرنے کے لیے کامیکاز ڈرونز کا استعمال کرتے ہوئے، بھارت نے لبنان میں اسرائیل کے SEAD آپریشنز کی طرح گہری حملوں کی سہولت فراہم کی، نئی دہلی کی میڈیا حکمت عملی — سویلین انفراسٹرکچر کی فوٹیج جاری کرنا اور انہیں دہشت گردی کے کیمپوں کے طور پر لیبل لگانا، جسے “اسرائیل کے تمام حملے” قرار دیا گیا۔ شہری ہلاکتوں کی رپورٹوں کو کم کرتے ہوئے فوجی کارروائیوں کو دفاعی قرار دیتا ہے۔ تاہم، بھارت کے بیانیے کو پاکستان کے جوابی پیغام رسانی اور اس کے مخالف کی خود مختار حیثیت کے پیش نظر بین الاقوامی جانچ کے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ ہندوستان کے ہندوتوا اور اسرائیل کی صیہونیت کے درمیان نظریاتی صف بندی، مساجد پر حملوں اور ہندوستان میں بڑھتے ہوئے مسلم مخالف تشدد کے ساتھ، موازنہ کو مزید ہوا دیتا ہے، حالانکہ 1947 کی تقسیم کے بعد کے ہندوستان پاکستان تنازعات کی جڑیں اسرائیل کے آباد کار نوآبادیاتی تناظر سے ہٹ گئی ہیں۔

تزویراتی طور پر، اسرائیل کے ساتھ بھارت کے بڑھتے ہوئے دفاعی تعلقات، ہتھیاروں کے سب سے بڑے خریدار کے طور پر، اس طرح کے ہتھکنڈوں کو اپنانے کے قابل بناتے ہیں، جس میں بھارت کے “خود دفاع” کے لیے اسرائیل کی حمایت ان کی صف بندی کو مضبوط کرتی ہے۔ پھر بھی، اس سے مسلم اکثریتی ممالک کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہونے اور ہندوستان کے جغرافیائی سیاسی توازن کے عمل کو پیچیدہ بنانے کا خطرہ ہے، خاص طور پر ایران اور خلیجی ریاستوں کے ساتھ۔ مقامی طور پر، بھارتیہ جنتا پارٹی اپنی قوم پرست بنیاد کو تقویت دینے کے لیے پاکستان مخالف جذبات کا سہارا لیتی ہے، بالکل اسی طرح جیسے اسرائیلی رہنما سلامتی کے خطرات کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ تاہم، جوہری داؤ جہاں ایک محدود تبادلہ بھی عالمی آب و ہوا میں خلل ڈال سکتا ہے—ہندوستان کے اقدامات کو الگ کر دیتا ہے، کیونکہ پاکستان کی انتقامی صلاحیتوں اور رافیل سمیت ہندوستانی جیٹ طیاروں کو گرانا، بڑھتے ہوئے خطرات کی نشاندہی کرتا ہے۔ اسرائیل کے برعکس، جو مضبوط امریکی حمایت سے فائدہ اٹھاتا ہے۔

جب کہ بھارت کا آپریشن سندھور اسرائیل کی پلے بک کے عناصر کی عکاسی کرتا ہے — پریزیشن اسٹرائیکس، SEAD، اور بیانیہ کنٹرول — یہ مشابہت جنوبی ایشیا کی منفرد حرکیات کی وجہ سے محدود ہے۔ جوہری دشمنی، تقسیم کا تاریخی تناظر، اور ہندوستان کے وسیع تر جغرافیائی سیاسی چیلنجز اسرائیل کے نقطہ نظر کے اطلاق کو محدود کرتے ہیں۔ بھارت کی جانب سے اسرائیلی حربوں کی تقلید اس کی فوجی پوزیشن کو بڑھاتی ہے لیکن عدالتوں میں تباہ کن اضافہ اور سفارتی تنہائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جیسے جیسے صورتحال تیار ہوتی ہے، مزید شواہد اس تشخیص کو بہتر بنا سکتے ہیں، لیکن تنازعہ ایک خطے کی حکمت عملیوں کو دوسرے کے غیر مستحکم فریم ورک میں ٹرانسپلانٹ کرنے کے خطرات کی نشاندہی کرتا ہے۔

پاکستان کا بھارت کو بھرپور جوابی کارروائی جس کے بعد بھارت نے جنگ بندی کا مطالبہ کر دیا۔

پاکستان کا بھارت کو بھرپور جوابی کارروائی جس کے بعد بھارت نے جنگ بندی کا مطالبہ کر دیا۔

یہ اعلان بھارت اور پاکستان کی طرف سے راتوں رات فوجی حملوں میں شدت آنے کے چند گھنٹے بعد سامنے آیا ہے۔

ہندوستان اور پاکستان کا کہنا ہے کہ انہوں نے سرحد پار سے فوجی حملوں میں اضافے کے چار دن کے بعد جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے۔

بھارت اور پاکستان کے درمیان دیرینہ کشیدگی نے ایک بار پھر عالمی توجہ اپنی جانب مبذول کر لی ہے، سرحد پار دشمنی میں ڈرامائی طور پر اضافے کے بعد۔ حالیہ رپورٹس بتاتی ہیں کہ پاکستان نے مبینہ بھارتی جارحیت کا زبردست جواب دیا، جس سے ایک غیر متوقع تبدیلی آئی: بھارت کا فوری جنگ بندی کا مطالبہ۔ واقعات کا یہ سلسلہ جنوبی ایشیا میں ابھرتی ہوئی طاقت کی حرکیات اور ڈی اسکیلیشن کے ممکنہ راستوں کے بارے میں اہم سوالات اٹھاتا ہے۔

پس منظر: تنازعہ کی چنگاری
بھارت پاکستان دشمنی، جس کی جڑیں کئی دہائیوں کے علاقائی تنازعات میں ہیں، خاص طور پر کشمیر پر، وقتاً فوقتاً بھڑکتی رہی ہیں۔ تازہ ترین کشیدگی مبینہ طور پر لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے ساتھ جھڑپوں سے شروع ہوئی، جو کشمیر کو تقسیم کرنے والی ڈی فیکٹو سرحد ہے۔ جنگ بندی کی خلاف ورزیوں، فوجیوں کی نقل و حرکت، اور مبینہ طور پر سرحد پار سے دراندازی کے الزامات نے کشیدگی کو تیز کر دیا، جس کا اختتام اعلیٰ فوجی تبادلے پر ہوا۔

پاکستان کی جوابی کارروائی: عزم کا مظاہرہ
علاقائی تجزیہ کاروں کے مطابق، پاکستان کے ردعمل نے اپنی ماضی کی حکمت عملیوں سے ایک اہم رخصتی کی نشاندہی کی۔ ایک حسابی اقدام میں، پاکستانی فورسز نے مبینہ طور پر ایل او سی کے ہندوستانی جانب “اسٹرٹیجک تنصیبات” کے خلاف ٹارگٹ سٹرائیکس شروع کیں۔ آپریشن، جسے عین اور تیز بتایا گیا ہے، اس کا مقصد سمجھے جانے والے خطرات کو بے اثر کرنا ہے جبکہ اسلام آباد کی اپنی علاقائی سالمیت کے دفاع کے لیے تیاری کا اشارہ دینا ہے۔

پاکستان کی جوابی کارروائی کے اہم پہلوؤں میں شامل ہیں:

سرجیکل ملٹری اسٹرائیکس: درست فضائی حملے یا توپ خانے کے حملے جو آگے کی پوسٹوں کو نشانہ بناتے ہیں۔

ڈپلومیٹک موبلائزیشن: مبینہ بھارتی جارحیت کو اجاگر کرکے بین الاقوامی حمایت حاصل کرنا۔

گھریلو اتحاد: کارروائی کو خودمختاری کے ضروری دفاع کے طور پر تیار کرکے عوامی حمایت حاصل کرنا۔

اس مضبوط ردعمل نے مبینہ طور پر ہندوستان کو چوکس کر دیا، اس کے آپریشنل حساب کتاب میں خلل ڈالا۔

بھارت کی جنگ بندی کی تجویز: ایک اسٹریٹجک دوبارہ گنتی؟
کشیدگی کے چند دن بعد، بھارت نے سفارتی ذرائع سے باضابطہ طور پر جنگ بندی کی تجویز پیش کی۔ جبکہ سرکاری بیانات میں “امن کے عزم” پر زور دیا گیا، ماہرین نئی دہلی کے اچانک محور کے پیچھے محرکات پر قیاس کرتے ہیں:

فوجی اخراجات: مسلسل دشمنی سے وسائل اور اہلکاروں کی کمی کا خطرہ تھا۔

بین الاقوامی دباؤ: امریکہ اور اقوام متحدہ سمیت عالمی طاقتوں نے ممکنہ طور پر انسانی بحران کو روکنے کے لیے تحمل سے کام لینے پر زور دیا۔

گھریلو عوامل: بڑھتے ہوئے جانی نقصان یا معاشی تناؤ نے عوامی جذبات کو متاثر کیا ہو سکتا ہے۔

اس تجویز پر پاکستان کا ردعمل اہم ہے۔ جبکہ اسلام آباد نے محتاط انداز میں اس اقدام کا خیر مقدم کیا، اس نے کشمیر کے دیرپا حل اور ماضی کے معاہدوں کی پاسداری کے مطالبات کا اعادہ کیا۔

علاقائی استحکام کے لیے مضمرات

ایک نئی طاقت کی مساوات: پاکستان کی جارحانہ جوابی کارروائی بھارتی تسلط کے تصورات کو چیلنج کرتی ہے، ممکنہ طور پر ڈیٹرنس کی حکمت عملیوں کو نئی شکل دے رہی ہے۔

انسانی بحران ٹل گیا: جنگ بندی کشمیر میں شہریوں کو بچا سکتی ہے، جو پہلے ہی بے گھر ہونے اور تشدد کا شکار ہیں۔

سفارتی مواقع: فریق ثالث، جیسے چین یا خلیجی ریاستیں، بات چیت کے لیے دباؤ ڈال سکتے ہیں۔

تاہم شکوک و شبہات برقرار ہیں۔ کشمیر جیسے بنیادی مسائل کو حل کیے بغیر، کسی بھی جنگ بندی کے عارضی ہونے کا خطرہ ہے۔

عالمی رد عمل

اقوام متحدہ: دونوں ممالک پر زور دیا کہ وہ “دہانے سے پیچھے ہٹیں” اور بات چیت دوبارہ شروع کریں۔

امریکہ اور چین: واشنگٹن نے اعتدال کا مطالبہ کیا، جبکہ بیجنگ نے ثالثی کی پیشکش کی، جو اس کے بڑھتے ہوئے علاقائی کردار کی عکاسی کرتا ہے۔

او آئی سی: اسلامی بلاک نے پاکستان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا لیکن عدم تشدد کے حل پر زور دیا۔

نتیجہ: امن کے لیے ایک نازک امید
اگرچہ ہندوستان کی جنگ بندی کی درخواست ایک مہلت پیش کرتی ہے، یہ ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات کے اتار چڑھاؤ کو واضح کرتی ہے۔ حقیقی استحکام کے لیے جرات مندانہ سفارت کاری، کشمیر پر سمجھوتہ اور اعتماد سازی کے اقدامات کی ضرورت ہوگی۔ ابھی کے لیے، دنیا قریب سے دیکھ رہی ہے، امید ہے کہ تشدد میں یہ وقفہ دیرپا امن میں بدل جائے گا۔

آگے کیا ہے؟

کیا بیک چینل بات چیت میں تیزی آئے گی؟

کیا اقتصادی تعاون سیکورٹی کشیدگی کو دور کر سکتا ہے؟

کشمیری اس بیانیے کو کیسے شکل دیں گے؟

جوابات اس بات کا تعین کر سکتے ہیں کہ آیا جنوبی ایشیا کی نازک جنگ بندی ایک اہم موڑ بنتی ہے — یا اگلے طوفان سے پہلے محض ایک وقفہ۔

ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے میں عسکریت پسندوں کے ہاتھوں ہندوستانی سیاحوں کی ہلاکت پر دہلی کی جانب سے اسلام آباد کے خلاف حملے شروع کیے جانے کے بعد سے ڈرون اور میزائل حملوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا ہے۔ پاکستان نے اس میں ملوث ہونے کی تردید کی تھی۔

راتوں رات لڑائی شدت اختیار کر گئی، دونوں ممالک ایک دوسرے پر ایئر بیس اور دیگر فوجی مقامات کو نشانہ بنانے کا الزام لگا رہے ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ دونوں ممالک نے “طویل رات کی بات چیت” کے بعد “مکمل اور فوری جنگ بندی” پر اتفاق کیا ہے۔ اس کے فوراً بعد پاکستان اور بھارت دونوں نے الگ الگ تصدیق کی۔

بدھ کے روز ہندوستان کے حملوں نے بین الاقوامی برادری کی طرف سے کشیدگی کو کم کرنے کے مطالبات کو جنم دیا، اقوام متحدہ اور عالمی رہنماؤں نے پرسکون رہنے کی اپیل کی۔

جنگ بندی کے اعلان کے بعد بات کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا کہ ہندوستان اور پاکستان نے ایک غیر جانبدار مقام پر وسیع مسائل پر بات چیت شروع کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ انہوں نے اور امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے سابقہ ​​48 گھنٹے بھارتی اور پاکستانی سینئر حکام کے ساتھ گزارے جن میں ان کے متعلقہ وزرائے اعظم نریندر مودی اور شہباز شریف بھی شامل ہیں۔

لائیو: جنگ بندی کے اعلان کے مطابق تازہ ترین اپ ڈیٹس پر عمل کریں۔
کشمیر پر بھارت اور پاکستان کیوں لڑتے ہیں؟
ڈرون جنگ نے پاک بھارت تنازع میں ایک نیا باب کھول دیا۔
ہندوستان کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے کہا کہ دونوں نے “فائرنگ اور فوجی کارروائی کو روکنے کے بارے میں ایک سمجھوتہ کیا”۔

انہوں نے کہا: “ہندوستان نے اپنی تمام شکلوں اور مظاہر میں دہشت گردی کے خلاف مستقل طور پر ایک مضبوط اور غیر سمجھوتہ کرنے والا موقف برقرار رکھا ہے۔ وہ ایسا کرتا رہے گا۔”

پاکستان کے نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار نے کہا: “پاکستان نے ہمیشہ اپنی خودمختاری اور علاقائی سالمیت پر سمجھوتہ کیے بغیر خطے میں امن و سلامتی کے لیے کوشش کی ہے۔”

کشمیر پر ہندوستان اور پاکستان مکمل طور پر دعویٰ کرتے ہیں، لیکن 1947 میں برطانیہ سے آزادی کے بعد تقسیم ہونے کے بعد سے ہر ایک کے زیر انتظام صرف ایک حصہ ہے۔

یہ دو جوہری ہتھیاروں سے لیس ممالک کے درمیان ایک فلیش پوائنٹ رہا ہے اور وہ اس پر دو جنگیں لڑ چکے ہیں۔

ہندوستان اور پاکستان کے درمیان حالیہ لڑائی پہلگام کے تفریحی قصبے میں 26 سیاحوں کی ہلاکت کے بعد دو ہفتوں کی کشیدگی کے بعد ہوئی ہے۔

ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں 22 اپریل کو ہونے والے حملے کے زندہ بچ جانے والوں نے، جس میں 25 ہندوستانی اور ایک نیپالی شہری ہلاک ہوا تھا، نے کہا کہ عسکریت پسند ہندو مردوں کو اکیلا کر رہے تھے۔

ہندوستانی وزارت دفاع نے کہا کہ اس ہفتے اس کے حملے حملے کے ذمہ داروں کو “جوابدہ” ٹھہرانے کے “عزم” کا حصہ تھے۔ پاکستان نے انہیں “غیر اشتعال انگیز” قرار دیا۔

پاکستان کا کہنا ہے کہ بدھ سے بھارتی فضائی حملوں اور سرحد پار سے فائرنگ کے نتیجے میں پاکستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں 36 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جب کہ بھارتی فوج نے پاکستانی گولہ باری سے کم از کم 16 شہریوں کی ہلاکت کی اطلاع دی ہے۔

اس سے قبل ہفتے کے روز، ہندوستان کی فوج نے کہا تھا کہ پاکستان نے اپنی مغربی سرحد پر بڑے پیمانے پر ڈرون حملے اور گولہ باری کی ہے، جس سے شہریوں کو خطرہ لاحق ہے – پاکستان نے اس دعوے کی تردید کی ہے۔

پاکستان نے کہا کہ اس نے پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد – چکوال اور شورکوٹ سے 10 کلومیٹر (6.2m) دور راولپنڈی کے ایئر بیس پر ہندوستانی میزائل حملوں پر جوابی کارروائی کی ہے۔

ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے میں عسکریت پسندوں کے ہاتھوں ہندوستانی سیاحوں کی ہلاکت پر دہلی کی جانب سے اسلام آباد کے خلاف حملے شروع کیے جانے کے بعد سے ڈرون اور میزائل حملوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا ہے۔ پاکستان نے اس میں ملوث ہونے کی تردید کی تھی۔

راتوں رات لڑائی شدت اختیار کر گئی، دونوں ممالک ایک دوسرے پر ایئر بیس اور دیگر فوجی مقامات کو نشانہ بنانے کا الزام لگا رہے ہیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ دونوں ممالک نے “طویل رات کی بات چیت” کے بعد “مکمل اور فوری جنگ بندی” پر اتفاق کیا ہے۔ اس کے فوراً بعد پاکستان اور بھارت دونوں نے الگ الگ تصدیق کی۔

بدھ کے روز ہندوستان کے حملوں نے بین الاقوامی برادری کی طرف سے کشیدگی کو کم کرنے کے مطالبات کو جنم دیا، اقوام متحدہ اور عالمی رہنماؤں نے پرسکون رہنے کی اپیل کی۔

جنگ بندی کے اعلان کے بعد بات کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا کہ ہندوستان اور پاکستان نے ایک غیر جانبدار مقام پر وسیع مسائل پر بات چیت شروع کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ انہوں نے اور امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے سابقہ ​​48 گھنٹے بھارتی اور پاکستانی سینئر حکام کے ساتھ گزارے جن میں ان کے متعلقہ وزرائے اعظم نریندر مودی اور شہباز شریف بھی شامل ہیں۔

لائیو: جنگ بندی کے اعلان کے مطابق تازہ ترین اپ ڈیٹس پر عمل کریں۔
کشمیر پر بھارت اور پاکستان کیوں لڑتے ہیں؟
ڈرون جنگ نے پاک بھارت تنازع میں ایک نیا باب کھول دیا۔
ہندوستان کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے کہا کہ دونوں نے “فائرنگ اور فوجی کارروائی کو روکنے کے بارے میں ایک سمجھوتہ کیا”۔

انہوں نے کہا: “ہندوستان نے اپنی تمام شکلوں اور مظاہر میں دہشت گردی کے خلاف مستقل طور پر ایک مضبوط اور غیر سمجھوتہ کرنے والا موقف برقرار رکھا ہے۔ وہ ایسا کرتا رہے گا۔”

پاکستان کے نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار نے کہا: “پاکستان نے ہمیشہ اپنی خودمختاری اور علاقائی سالمیت پر سمجھوتہ کیے بغیر خطے میں امن و سلامتی کے لیے کوشش کی ہے۔”

کشمیر پر ہندوستان اور پاکستان مکمل طور پر دعویٰ کرتے ہیں، لیکن 1947 میں برطانیہ سے آزادی کے بعد تقسیم ہونے کے بعد سے ہر ایک کے زیر انتظام صرف ایک حصہ ہے۔

یہ دو جوہری ہتھیاروں سے لیس ممالک کے درمیان ایک فلیش پوائنٹ رہا ہے اور وہ اس پر دو جنگیں لڑ چکے ہیں۔

ہندوستان اور پاکستان کے درمیان حالیہ لڑائی پہلگام کے تفریحی قصبے میں 26 سیاحوں کی ہلاکت کے بعد دو ہفتوں کی کشیدگی کے بعد ہوئی ہے۔

ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں 22 اپریل کو ہونے والے حملے کے زندہ بچ جانے والوں نے، جس میں 25 ہندوستانی اور ایک نیپالی شہری ہلاک ہوا تھا، نے کہا کہ عسکریت پسند ہندو مردوں کو اکیلا کر رہے تھے۔

ہندوستانی وزارت دفاع نے کہا کہ اس ہفتے اس کے حملے حملے کے ذمہ داروں کو “جوابدہ” ٹھہرانے کے “عزم” کا حصہ تھے۔ پاکستان نے انہیں “غیر اشتعال انگیز” قرار دیا۔

پاکستان کا کہنا ہے کہ بدھ سے بھارتی فضائی حملوں اور سرحد پار سے فائرنگ کے نتیجے میں پاکستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں 36 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جب کہ بھارتی فوج نے پاکستانی گولہ باری سے کم از کم 16 شہریوں کی ہلاکت کی اطلاع دی ہے۔

اس سے قبل ہفتے کے روز، ہندوستان کی فوج نے کہا تھا کہ پاکستان نے اپنی مغربی سرحد پر بڑے پیمانے پر ڈرون حملے اور گولہ باری کی ہے، جس سے شہریوں کو خطرہ لاحق ہے – پاکستان نے اس دعوے کی تردید کی ہے۔

پاکستان نے کہا کہ اس نے پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد – چکوال اور شورکوٹ سے 10 کلومیٹر (6.2m) دور راولپنڈی کے ایئر بیس پر ہندوستانی میزائل حملوں پر جوابی کارروائی کی ہے۔

2000 سے 2023 تک ہندوستان کے بنائے ہوئے ہندوستانی سیکورٹی فورسز کے ہیلی کاپٹر گر کر تباہ ہوئے

2000 سے 2023 تک ہندوستان کے بنائے ہوئے ہندوستانی سیکورٹی فورسز کے ہیلی کاپٹر گر کر تباہ ہوئے

اکتوبر 2023 تک (تازہ ترین اعداد و شمار دستیاب ہیں)، آپریشنل حساسیت کی وجہ سے ہندوستانی فوج، بحریہ، اور فضائیہ کے ہیلی کاپٹر کے کریش ہونے کی صحیح تعداد کو عوامی طور پر ایک مضبوط شکل میں ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔ تاہم، اوپن سورس رپورٹس، پارلیمانی ریکارڈ، اور وزارت دفاع کے بیانات کی بنیاد پر، یہاں ایک تخمینی خرابی ہے

بھارتی فضائیہ (IAF) کا ہیلی کاپٹر گر کر تباہ
2000-2023: 40 سے زیادہ ہیلی کاپٹر حادثوں کی اطلاع ملی، جس میں Mi-17 سیریز اور دھرو ایڈوانسڈ لائٹ ہیلی کاپٹر (ALH) متعدد واقعات میں ملوث تھے۔

2021–2023: کم از کم 6 حادثے، بشمول المناک 2021 Mi-17V5 حادثہ جس میں CDS جنرل بپن راوت اور 13 دیگر ہلاک ہوئے۔

بھارتی فوج کا ہیلی کاپٹر گر کر تباہ
2000-2023: تقریباً 25-30 حادثے، جن میں بنیادی طور پر عمر رسیدہ چیتا اور چیتک ہیلی کاپٹر شامل ہیں۔

زیادہ خطرے والے زون: سیاچن گلیشیئر اور پہاڑی علاقے انتہائی موسم اور خطوں کی وجہ سے ہونے والے حادثوں میں ~ 60% کا حصہ ہیں۔

2023: 1 حادثے کی اطلاع (J&K میں چیتا، جولائی 2023)۔

بھارتی بحریہ کا ہیلی کاپٹر گر کر تباہ
2000-2023: تقریباً 15-20 واقعات، بشمول سی کنگ، کاموف-28، اور ALH میری ٹائم آپریشنز کے دوران کریش ہوئے۔

2022–2023: 2 حادثے (مثلاً، 2022 میں ممبئی کے ساحل پر ALH کریش)۔

کل تخمینی کریشز (2000–2023)
برانچ کا تخمینہ شدہ کریشز میں شامل عام ماڈلز
انڈین ایئر فورس 40+ ایم آئی 17، دھرو اے ایل ایچ، چیتک
انڈین آرمی 25-30 چیتا، چیتک، رودر
انڈین نیوی 15-20 سی کنگ، کاموف-28، اے ایل ایچ
کل 80-90
کلیدی مشاہدات
عمر رسیدہ بحری بیڑے: چیتا/چیتک ہیلی کاپٹر (1960 کی دہائی) فوج کے 50% حادثوں میں حصہ لیتے ہیں۔

Dhruv ALH خدشات: HAL کے تیار کردہ ALH ہیلی کاپٹروں کو 2005 کے بعد سے 8+ حادثات کا سامنا کرنا پڑا، جس سے حفاظتی اپ گریڈ کا اشارہ ہوا۔

اونچائی کے خطرات: 30% حادثے ہمالیائی علاقوں میں ہوتے ہیں (مثلاً، سیاچن، لداخ)۔

حالیہ رجحانات: 2020 سے بہتر حفاظتی پروٹوکول نے کریشوں کو کم کیا ہے، لیکن چیلنجز برقرار ہیں۔

قابل ذکر حالیہ واقعات (2021–2023)
دسمبر 2021: تمل ناڈو میں Mi-17V5 حادثہ (14 ہلاکتیں)۔

جولائی 2023: جموں و کشمیر میں آرمی چیتا گر کر تباہ (2 پائلٹ زخمی)۔

اکتوبر 2022: ممبئی کے ساحل پر نیول ALH گر کر تباہ (3 ہلاکتیں)۔

صحیح نمبر کیوں دستیاب نہیں ہیں۔
آپریشنل رازداری: فوجی حادثے کے اعداد و شمار کو اکثر کمزوریوں کو ظاہر کرنے سے بچنے کے لیے درجہ بندی کیا جاتا ہے۔

رپورٹنگ گیپس: معمولی حادثات (مثلاً سخت لینڈنگ) عوامی ریکارڈ نہیں بنا سکتے۔

ارتقا پذیر اپ ڈیٹس: کچھ حادثے زیر تفتیش ہیں اور باضابطہ طور پر نتیجہ اخذ نہیں کیا گیا ہے۔

تصدیق کے ذرائع
ہندوستانی MoD کی سالانہ رپورٹس (محدود حادثے کی تفصیلات)۔

پارلیمانی قائمہ کمیٹی برائے دفاع (کبھی کبھار انکشافات)۔

ایوی ایشن سیفٹی نیٹ ورک ڈیٹا بیس (عالمی واقعات کو ٹریک کرتا ہے)۔

آگے کا راستہ
بھارت خطرات سے نمٹ رہا ہے:

چیتا/ چیتک کو HAL کے لائٹ یوٹیلیٹی ہیلی کاپٹر (LUH) سے تبدیل کرنا۔

انتہائی موسم کے لیے پائلٹ کی تربیت میں اضافہ۔

AI/ML ٹولز کا استعمال کرتے ہوئے پیش گوئی کی دیکھ بھال۔

2000 سے 2023 تک ہندوستان کے بنائے ہوئے ہندوستانی سیکورٹی فورسز کے ہیلی کاپٹر گر کر تباہ ہوئے
2000 سے 2023 تک ہندوستان کے بنائے ہوئے ہندوستانی سیکورٹی فورسز کے ہیلی کاپٹر گر کر تباہ ہوئے
2000 سے 2023 تک ہندوستان کے بنائے ہوئے ہندوستانی سیکورٹی فورسز کے ہیلی کاپٹر گر کر تباہ ہوئے

ہندوستانی فوج، بحریہ، اور فضائیہ جنگی مشنوں اور قدرتی آفات سے نجات کے لیے طبی انخلاء اور فوجیوں کی نقل و حمل کے لیے اہم کارروائیوں کے لیے ہیلی کاپٹروں پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے۔ تاہم، ہیلی کاپٹر کے حادثوں نے وقتاً فوقتاً فوجی ہوا بازی میں موجود خطرات کو اجاگر کیا ہے۔ یہ بلاگ حفاظت کو بڑھانے کی کوششوں کے ساتھ ساتھ اس طرح کے واقعات کی تاریخ، اسباب اور اثرات کو تلاش کرتا ہے۔

ہندوستان کے دفاع میں ہیلی کاپٹروں کا کردار
ہندوستان کی فوج ہیلی کاپٹروں کے متنوع بیڑے چلاتی ہے، بشمول:

ہندوستانی فضائیہ (IAF): Mi-17V5، Chinook، Apache، Dhruv ALH۔

ہندوستانی فوج: چیتا، چیتک، رودر۔

ہندوستانی بحریہ: کاموف-28، سی کنگ، دھرو۔

یہ طیارے اونچائی پر آپریشنز (مثلاً سیاچن)، قزاقی مخالف مشن، اور تیزی سے تعیناتی کے لیے اہم ہیں۔ پھر بھی، عمر رسیدہ بیڑے، سخت ماحول، اور آپریشنل دباؤ حادثات کا باعث بنتے ہیں۔

کریش کے اعدادوشمار: ایک دہائی کا جائزہ
اگرچہ درست اعداد و شمار کی اکثر درجہ بندی کی جاتی ہے، عوامی رپورٹس پریشان کن رجحانات کو ظاہر کرتی ہیں (2013–2023):

ہندوستانی فضائیہ: 15+ کریش، بشمول Mi-17V5 اور Dhruv ALH۔

ہندوستانی فوج: 10+ حادثے، بنیادی طور پر چیتا/چیتک ماڈل۔

ہندوستانی بحریہ: 5+ واقعات، جن میں سی کنگز اور ALH شامل ہیں۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ 2000 سے لے کر اب تک 40% IAF حادثے میں ہیلی کاپٹر شامل تھے، جو جدید کاری کی عجلت پر زور دیتے ہیں۔

کریش کی عام وجوہات
تکنیکی خرابیاں:

عمر رسیدہ بحری بیڑے: چیتک/چیتا ہیلی کاپٹر، 1960 کی دہائی سے خدمت میں ہیں، حصے کی کمی اور تھکاوٹ کا سامنا ہے۔

انجن کی خرابی: دھرو اے ایل ایچ کے کریش ہونے کی ایک اہم وجہ (مثلاً، 2022 J&K حادثہ)۔

انسانی غلطی:

پائلٹ کی تربیت میں خلاء، کمزور مرئیت میں غلط فہمی، یا نیویگیشن کی غلطیاں۔

موسم اور علاقہ:

ہمالیائی کارروائیاں اچانک طوفانوں، ڈاؤن ڈرافٹس اور وائٹ آؤٹ جیسے خطرات کا باعث بنتی ہیں۔

دیکھ بھال کے مسائل:

اوور ہال میں تاخیر اور وسائل کی رکاوٹیں، خاص طور پر سوویت دور کے ماڈلز جیسے Mi-17 کے لیے۔

دشمن کی کارروائی:

نایاب لیکن اثر انگیز، جیسا کہ تمل ناڈو میں 2021 Mi-17V5 حادثہ (ممکنہ تخریب کاری سے منسلک)۔

قابل ذکر واقعات اور ان کے اثرات
2021 تامل ناڈو Mi-17V5 کریش

متاثرین: سی ڈی ایس جنرل بپن راوت، ان کی اہلیہ، اور 12 دیگر۔

وجہ: کورٹ آف انکوائری نے خراب موسم میں پائلٹ کی غلطی کا حوالہ دیا۔

اثر: ایک قومی المیہ جس نے VIP ٹریول پروٹوکول پر بحث کو جنم دیا۔

2015 سیاچن چیتا کریش

متاثرین: تین فوجی اہلکار۔

وجہ: ریسکیو آپریشن کے دوران تکنیکی خرابی۔ اونچائی پر پرواز کے خطرات کو نمایاں کیا گیا۔

2022 نیول ALH کریش

تفصیلات: ٹریننگ کے دوران ممبئی کے ساحل پر گر کر تباہ؛ 3 ہلاکتیں

نتیجہ: معائنے کے لیے دھرو بیڑے کی عارضی بنیاد۔

2019 Mi-17 فرینڈلی فائر (بڈگام، جموں و کشمیر)

وجہ: پاک بھارت کشیدگی کے دوران دشمنی کے طور پر غلط شناخت کی گئی۔ آئی اے ایف کے 6 اہلکار مارے گئے۔

اصلاحات: نظر ثانی شدہ IFF (دوست/دشمن کی شناخت) پروٹوکول۔

روک تھام: جدید کاری اور حفاظتی اقدامات
فلیٹ اپ گریڈ:

HAL کے LUH (لائٹ یوٹیلیٹی ہیلی کاپٹر) کے ساتھ چیتک/چیتا کو ختم کرنا۔

بہتر صلاحیتوں کے لیے اپاچی، چنوک، اور MH-60R Seahawk کی شمولیت۔

تربیت میں اضافہ:

انتہائی موسم اور ہنگامی حالات کے لیے جدید ترین سمیلیٹر۔

بہترین طریقوں کے لیے نیٹو ممالک کے ساتھ مشترکہ تربیت۔

مینٹیننس اوور ہالز:

OEMs کے ساتھ شراکت داری جیسے روس کے Rostec برائے Mi-17 سپورٹ۔

AI اور IoT سینسر کا استعمال کرتے ہوئے پیش گوئی کی دیکھ بھال۔

دیسی حل:

HAL کے Dhruv Mk-III اور Prachand LCH کو کریش مزاحم خصوصیات کے ساتھ ڈیزائن کیا گیا ہے۔

درآمدات پر انحصار کم کرنے کے لیے “میک ان انڈیا” پر زور دیں۔

آگے کی سڑک
اگرچہ حادثے ایک تلخ حقیقت بنی ہوئی ہیں، ہندوستان کی مسلح افواج فعال اقدامات کر رہی ہیں:

سیفٹی آڈٹ: ڈائریکٹوریٹ جنرل آف ایروناٹیکل کوالٹی ایشورنس کے باقاعدہ جائزے

بین الاقوامی تعاون: امریکی فوج کے سیفٹی سینٹر اور اسرائیل کی UAV مہارت سے سیکھنا۔

کمیونٹی سپورٹ: گرے ہوئے اہلکاروں کی عزت کرنا اور فلاحی اسکیموں کے ذریعے خاندانوں کی مدد کرنا۔

نتیجہ
ہندوستانی فوج میں ہیلی کاپٹر کے کریش سروس کے ممبران قوم کی حفاظت کے لیے اٹھائے جانے والے خطرات کی یاد دہانی ہیں۔ نظامی چیلنجوں سے نمٹتے ہوئے — عمر رسیدہ سازوسامان، تربیتی فرق، اور ماحولیاتی خطرات — ہندوستان کا مقصد اپنے ہیروز کی قربانیوں کا احترام کرتے ہوئے اپنے آسمانوں کو محفوظ بنانا ہے۔

امریکہ اور ایران ہفتہ کو نیوکلیئر مذاکرات کریں گے۔

امریکہ اور ایران ہفتہ کو نیوکلیئر مذاکرات کریں گے۔

صدر ٹرمپ نے اوول آفس سے اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ ایران کے ساتھ نئے جوہری معاہدے پر بات چیت کرے گا۔

ایران جوہری مذاکرات: صدر ٹرمپ نے کہا کہ امریکہ ہفتے کے روز جوہری معاہدے پر بات کرنے کے لیے ایران کے ساتھ “براہ راست” بات چیت کرے گا، حالانکہ ایرانی حکام نے کہا کہ اس منصوبے میں عمانی سفارت کاروں کو ثالث کے طور پر استعمال کرنا شامل ہے۔ مسٹر ٹرمپ، جنہوں نے سات سال قبل ایران کے ساتھ اوباما دور کے جوہری معاہدے کو ترک کر دیا تھا، نے ان منصوبوں کا اعلان اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو سے ملاقات کے بعد کیا۔ مسٹر ٹرمپ نے کہا کہ اگر مذاکرات کامیاب نہ ہوئے تو ایران “بڑے خطرے میں” ہو گا۔ مزید پڑھیں ›

مارکیٹ میں ہنگامہ آرائی: S&P 500 ابتدائی ٹریڈنگ میں ریچھ کے بازار کے علاقے میں پھسل گیا لیکن دن کے اختتام تک واپس اس کے قریب پہنچ گیا جہاں سے یہ کھلا تھا۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ اپنی تجارتی جنگ سے پیچھے نہیں ہٹیں گے اور چین پر سخت محصولات عائد کرنے کی دھمکی دی، جس سے عالمی اقتصادی بدحالی کے خدشات کو تقویت ملی۔ مزید پڑھیں ›

ملک بدری کی آخری تاریخ: چیف جسٹس جان جی رابرٹس جونیئر نے عارضی طور پر ایک جج کے حکم کو روک دیا جس میں ٹرمپ انتظامیہ کو ایک ایسے شخص کو بازیافت کرنے کی ہدایت کی گئی تھی جسے گزشتہ ماہ غلط طریقے سے ایل سلواڈور بھیج دیا گیا تھا۔ انتظامی قیام سے ججوں کو سانس لینے کی گنجائش ملتی ہے جبکہ فل کورٹ اس معاملے پر غور کرتی ہے۔ مزید پڑھیں ›

صحت کا دورہ: ویسٹ ٹیکساس میں خسرہ سے مرنے والے ایک غیر ویکسین شدہ بچے کی آخری رسومات میں شرکت کے ایک دن بعد، ہیلتھ سکریٹری رابرٹ ایف کینیڈی جونیئر نے بیماری سے لڑنے کے لیے غذائیت اور طرز زندگی کے انتخاب پر زور دینے کے لیے جنوب مغرب کا دورہ کرنا شروع کیا۔ مزید پڑھیں ›

سیاق و سباق: بحران میں ایک معاہدہ
جے سی پی او اے، جسے کسی زمانے میں ایک تاریخی سفارتی کامیابی کے طور پر سراہا جاتا تھا، 2018 میں ٹرمپ انتظامیہ کے تحت امریکہ کے دستبردار ہونے کے بعد سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا ہے۔ ایران پر سخت پابندیوں کے دوبارہ نفاذ نے تہران کو جوہری حدود کی تعمیل ترک کرنے پر مجبور کیا، اور یورینیم کی افزودگی کی سطح کو قریب تر کر دیا۔ صدر بائیڈن کے 2021 کے معاہدے میں دوبارہ شامل ہونے کے وعدے نے چھٹپٹ مذاکرات کو جنم دیا، لیکن اہم مطالبات پر پیش رفت رک گئی ہے:

ایران کا موقف: جوہری پیشرفت کو تبدیل کرنے سے پہلے پابندیوں میں مکمل ریلیف۔

امریکی پوزیشن: پابندیاں ہٹانے سے پہلے ایران کے جوہری پروگرام کا قابل تصدیق رول بیک۔

آنے والی بات چیت موقع کی ایک نادر کھڑکی کا اشارہ دیتی ہے، حالانکہ بداعتمادی گہری ہوتی ہے۔

میز پر اہم مسائل

پابندیوں میں ریلیف بمقابلہ جوہری تعمیل
“چکن یا انڈے” کا تعطل بنیادی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ ایران اس بات کی ضمانت چاہتا ہے کہ تیل کی برآمدات، بینکنگ اور اہم صنعتوں کو نشانہ بنانے والی امریکی پابندیاں مستقل طور پر ہٹا دی جائیں گی۔ واشنگٹن کا اصرار ہے کہ ایران کو سب سے پہلے جدید سینٹری فیوجز کو ختم کرنا چاہیے اور اپنے یورینیم کے ذخیرے کو JCPOA کی لازمی سطح تک کم کرنا چاہیے۔

علاقائی پراکسی تنازعات اور بیلسٹک میزائل
اصل معاہدے کا حصہ نہ ہونے کے باوجود، امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ایران کی حزب اللہ جیسے گروپوں کی حمایت اور اس کے میزائل پروگرام کو دیرپا استحکام کے لیے حل کیا جانا چاہیے۔ تہران انہیں قومی دفاع کے معاملات کے طور پر تیار کرتے ہوئے اسے ناقابلِ مذاکرات قرار دیتا ہے۔

گھریلو دباؤ
دونوں حکومتوں کو اندرون ملک شکوک و شبہات کا سامنا ہے۔ صدر بائیڈن کا مقابلہ ریپبلکن اپوزیشن اور اسرائیل اور سعودی عرب جیسے اتحادیوں سے ہے، جو جے سی پی او اے کو ناکافی سمجھتے ہیں۔ دریں اثنا، ایران کی قیادت معاشی مشکلات پر عوامی مایوسی کے خلاف سخت گیر مطالبات میں توازن رکھتی ہے۔

یہ باتیں کیوں اہمیت رکھتی ہیں۔

عالمی عدم پھیلاؤ: ایک ناکام JCPOA غیر محدود ایرانی جوہری پروگرام کو خطرے میں ڈالتا ہے، جو ممکنہ طور پر علاقائی ہتھیاروں کی دوڑ کو شروع کر سکتا ہے۔

اقتصادی مضمرات: پابندیوں میں ریلیف ایرانی تیل کو عالمی منڈیوں میں دوبارہ متعارف کرا سکتا ہے، افراط زر کے درمیان توانائی کی قیمتوں میں نرمی۔

سفارتی لہر کے اثرات: کامیابی دیگر مسائل پر امریکہ-ایران کے مذاکرات کو فروغ دے سکتی ہے، جبکہ ناکامی بڑھنے کا حوصلہ پیدا کر سکتی ہے۔

محتاط رجائیت، اہم رکاوٹیں
اگرچہ دونوں فریقوں نے سمجھوتہ کرنے پر آمادگی کا اشارہ دیا ہے، لیکن رکاوٹیں برقرار ہیں:

ٹائمنگ: ایران کے 2024 کے انتخابات اور امریکی سیاسی تبدیلیاں فوری ضرورت کو بڑھاتی ہیں۔

توثیق: تعمیل کو یقینی بنانے کے لیے مضبوط نگرانی کی ضرورت ہے، جو کہ ایرانی دھندلاپن کے ماضی کے الزامات کے بعد تنازعہ کا ایک نقطہ ہے۔

بیرونی اداکار: اسرائیل، خلیجی ریاستیں، اور روس/چین – ان سبھی نے نتیجہ میں سرمایہ کاری کی ہے – مذاکرات کو متاثر کر سکتے ہیں۔

آگے کیا ہے؟
ہفتے کے روز ہونے والے مذاکرات میں فوری کامیابی حاصل کرنے کا امکان نہیں ہے لیکن یہ بڑھتے ہوئے اقدامات کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔ مبصرین دیکھیں گے:

عبوری معاہدے: پابندیوں میں ریلیف اور جوہری رول بیکس کے لیے مرحلہ وار طریقہ۔

علاقائی سلامتی کے مکالمے: وسیع تر کشیدگی سے نمٹنے کے لیے مشرق وسطیٰ کے ممالک پر مشتمل متوازی مذاکرات۔

عوامی پیغام رسانی: سخت گیر موقف کے مقابلے میں اعتماد پیدا کرنے کے لیے تعمیری بیان بازی۔

نتیجہ
امریکہ ایران جوہری مذاکرات ایک اعلیٰ سطحی سفارتی ٹائیٹروپ واک کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اگرچہ JCPOA کو بحال کرنے کا راستہ بھرا ہوا ہے، لیکن متبادل — جوہری ہتھیاروں سے لیس ایران یا فوجی تنازع — اس سے کہیں زیادہ تاریک ہے۔ جیسا کہ دنیا اس ہفتے کے آخر میں دیکھ رہی ہے، سوال باقی ہے: کیا عملی سمجھوتہ دہائیوں کی دشمنی پر غالب آ سکتا ہے؟ اس کا جواب آنے والے برسوں تک مشرق وسطیٰ اور عالمی سلامتی کو تشکیل دے گا۔

ٹرمپ کے باہمی محصولات نے عالمی سست روی کے خدشات کو جنم دیا ہے۔

ٹرمپ کے باہمی محصولات اور عالمی سست روی کا ایک جامع تجزیہ

ڈونالڈ ٹرمپ کی تجارتی پالیسی کا ایک خاص نشان، باہمی محصولات کا منظر پھر سے ابھرا ہے، جس نے عالمی اقتصادی سست روی کے خدشات کو دہرایا ہے۔ جیسا کہ حکومتیں اور مارکیٹیں ممکنہ ہلچل کے لیے تیار ہیں، یہ بلاگ ان محصولات کے میکانکس، ان کے تاریخی اثرات، اور عالمی معیشت پر پڑنے والے اثرات کو بیان کرتا ہے۔

بہت قریب، ابھی تک بہت دور
اس سے پہلے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور یوکرین کے ولادیمیر زیلنسکی آج اوول آفس کے پیلے، کڑھائی والے صوفوں پر بیٹھیں، یوکرین اور روس کے درمیان تین سالہ جنگ کو روکنے کا امریکی صدر کا منصوبہ زور پکڑ رہا تھا۔

فرانس اور برطانیہ نے امن فوجی دستے فراہم کرنے کا عہد کیا، اور ٹرمپ نے ان دونوں ممالک کے رہنماؤں کی طرف سے ذاتی لابنگ کو مسترد کر دیا کہ امریکہ جنگ بندی کا بیک اپ ضامن ہو۔

ٹرمپ یہاں تک کہ یوکرین کے رہنما کو ایک “آمر” قرار دیتے ہوئے واپس چلے گئے تھے اور اس امید کا اظہار کیا تھا کہ جلد ہی روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ جنگ بندی کے لیے ملاقات ہوگی۔

**ٹرمپ کے باہمی ٹیرف: بنانے میں عالمی سست روی؟**

عالمی معیشت کو ایک بار پھر غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے کیونکہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے باہمی محصولات کے لیے دباؤ نے ممکنہ سست روی پر تشویش کو جنم دیا ہے۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے جسے وہ غیر منصفانہ تجارتی طریقوں کے طور پر بیان کرتا ہے، یہ ٹیرف بین الاقوامی تجارت کو نئی شکل دینے کے لیے تیار ہیں — لیکن کس قیمت پر؟

## **باہمی ٹیرف کیا ہیں؟**

باہمی محصولات سے مراد ان ممالک کی درآمدات پر عائد تجارتی محصولات ہیں جو امریکی برآمدات پر اعلیٰ محصولات عائد کرتے ہیں۔ خیال یہ ہے کہ کھیل کے میدان کو اس بات کو یقینی بنا کر برابر کیا جائے کہ اگر کوئی دوسری قوم امریکی اشیا پر ٹیرف عائد کرتی ہے، تو امریکہ مساوی ٹیرف کے ساتھ جواب دیتا ہے۔ اگرچہ اس حکمت عملی کا مقصد تجارتی شراکت داروں پر اپنی تجارتی رکاوٹوں کو کم کرنے کے لیے دباؤ ڈالنا ہے، لیکن یہ تاریخی طور پر تجارتی جنگوں اور معاشی عدم استحکام کا باعث بنی ہے۔

## **حکومتیں کیسا ردعمل ظاہر کر رہی ہیں**

دنیا بھر کی حکومتوں نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے، یورپی یونین، چین اور کینیڈا جیسے بڑے اقتصادی کھلاڑیوں نے خبردار کیا ہے کہ باہمی محصولات کشیدگی کو بڑھا سکتے ہیں اور عالمی تجارت کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ متعدد ممالک عالمی تجارتی تنظیم (WTO) کے ذریعے جوابی ٹیرف اور قانونی چیلنجوں سمیت انسدادی اقدامات پر غور کر رہے ہیں۔

چین، خاص طور پر، امریکہ کے ساتھ تجارتی تنازعات میں سب سے آگے رہا ہے اور وہ اپنی درآمدی پابندیوں یا امریکی مصنوعات پر محصولات میں اضافے کے ساتھ جواب دے سکتا ہے۔ دریں اثنا، یورپی رہنماؤں کو خدشہ ہے کہ تجارتی رکاوٹوں میں اضافہ معاشی بحالی کو سست کر دے گا اور ان کاروباروں کے لیے غیر یقینی صورتحال پیدا کرے گا جو عالمی سپلائی چین پر انحصار کرتے ہیں۔

## **عالمی منڈیوں پر اثرات**

مالیاتی منڈیوں نے ٹرمپ کی تجویز کردہ ٹیرف پالیسیوں پر اتار چڑھاؤ کے ساتھ رد عمل ظاہر کیا ہے۔ سرمایہ کاروں کو خدشہ ہے کہ زیادہ ٹیرف مہنگائی کے دباؤ، کارپوریٹ آمدنی میں کمی، اور سست اقتصادی ترقی کا باعث بن سکتے ہیں۔ اسٹاک مارکیٹوں میں اتار چڑھاؤ کا سامنا ہے، بین الاقوامی تجارت میں بہت زیادہ ملوث کمپنیوں کے حصص کی قیمتوں میں کمی دیکھنے میں آئی۔

### **اہم اقتصادی خدشات:**

– **صارفین اور کاروباروں کے لیے بڑھتے ہوئے اخراجات**: ٹیرف میں اضافہ عام طور پر درآمدی سامان کی قیمتوں میں اضافے کا باعث بنتا ہے، جس سے صارفین اور کاروبار دونوں کے لیے لاگت بڑھ جاتی ہے۔
– **سپلائی چین میں رکاوٹیں**: عالمی سپلائی چینز پر انحصار کرنے والی کمپنیاں بڑھتے ہوئے اخراجات اور تاخیر کے ساتھ جدوجہد کر سکتی ہیں۔
– **کم بین الاقوامی تجارت**: باہمی محصولات تجارت کی حوصلہ شکنی کر سکتے ہیں، جس کی وجہ سے برآمدات اور درآمدات کم ہو سکتے ہیں، جس سے عالمی GDP نمو متاثر ہوتی ہے۔
– **سرمایہ کاروں کی غیر یقینی صورتحال**: مارکیٹ میں اتار چڑھاؤ اور معاشی سکڑاؤ کے خدشات سرمایہ کاری کے اعتماد کو کم کر سکتے ہیں۔

## **کیا یہ عالمی سست روی کا باعث بنے گا؟**

اقتصادی ماہرین ٹرمپ کی ٹیرف حکمت عملی کے طویل مدتی نتائج پر منقسم ہیں۔ جب کہ کچھ دلیل دیتے ہیں کہ دباؤ منصفانہ تجارتی معاہدوں کا باعث بن سکتا ہے، دوسروں نے خبردار کیا ہے کہ ٹِٹ فار ٹیٹ اپروچ عالمی اقتصادی ترقی کو روک سکتا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ تجارتی جنگیں اکثر کاروباری اعتماد میں کمی، کم سرمایہ کاری، اور ملازمتوں میں سست رفتاری کا باعث بنتی ہیں۔

عالمی معیشت اب بھی ماضی کی اقتصادی رکاوٹوں سے ٹھیک ہو رہی ہے، اگر تجارتی تناؤ بڑھتا رہتا ہے تو عالمی سست روی کا خطرہ زیادہ رہتا ہے۔ پالیسی سازوں کو ان چیلنجوں کو احتیاط سے نیویگیٹ کرنے کی ضرورت ہوگی تاکہ مکمل پیمانے پر معاشی بدحالی کو روکا جا سکے۔

**نتیجہ**
ٹرمپ کے باہمی محصولات ایک جرات مندانہ، خطرناک ہونے کے باوجود تجارتی پالیسی کے نقطہ نظر کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اگرچہ اس کا مقصد ایک زیادہ متوازن عالمی تجارتی ماحول پیدا کرنا ہے، لیکن اس کے غیر ارادی نتائج دور رس ہو سکتے ہیں۔ آیا یہ اقدامات منصفانہ تجارت کا باعث بنتے ہیں یا معاشی بدحالی دیکھنا باقی ہے، لیکن ایک بات یقینی ہے: دنیا اس پر گہری نظر رکھے گی۔

ٹیرف کی جاری جنگ کے درمیان ٹرمپ اور کارنی نے پہلی ملاقات کی۔

ٹیرف کی جاری جنگ کے درمیان ٹرمپ اور کارنی نے پہلی ملاقات کی۔

ٹرمپ نے اس ہفتے کے شروع میں تمام غیر ملکی ساختہ کاروں پر 25 فیصد ٹیرف کا اعلان کیا، جس سے کینیڈا کی طرف سے ناراض ردعمل سامنے آیا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ شمالی امریکہ کے دو اتحادیوں کے درمیان جاری ٹیرف کی جنگ کے درمیان، کینیڈا کے وزیر اعظم مارک کارنی کے ساتھ ان کی پہلی “انتہائی نتیجہ خیز” کال تھی۔

ایک سچائی کی سماجی پوسٹ میں، ٹرمپ نے کہا کہ دونوں 28 اپریل کو کینیڈا کے آئندہ انتخابات کے بعد “فوری طور پر” ملاقات کریں گے اور “سیاست، کاروبار اور دیگر تمام عوامل” پر بات چیت کریں گے۔

ٹرمپ کا امریکہ میں گاڑیوں کی درآمد پر 25 فیصد ٹیرف کا منصوبہ اگلے ہفتے سے نافذ ہونا ہے اور یہ کینیڈین کار انڈسٹری کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔

جمعرات کی شام، کارنی نے کہا کہ امریکہ “اب ایک قابل اعتماد تجارتی پارٹنر نہیں رہا” اور یہ کہ امریکہ اور کینیڈا کے تعلقات ہمیشہ کے لیے “بنیادی طور پر مختلف” رہیں گے۔

نئے وزیر اعظم، جو اپنی انتخابی مہم کے درمیان ہیں، نے ابھی تک ٹرمپ کے ساتھ کال پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔

تاریخی طور پر، کینیڈین رہنماؤں نے وزیر اعظم بننے کے فوراً بعد اپنے امریکی ہم منصب سے فون کو ترجیح دی ہے۔

کارنی اور ٹرمپ کے درمیان کال، تاہم، کارنی کے 14 فروری کو اقتدار سنبھالنے کے بعد یہ پہلا فون ہے۔

ٹیرف پر کینیڈا کے ساتھ تجارتی جنگ شروع کرنے کے علاوہ، ٹرمپ نے بار بار کینیڈا کو 51 ویں امریکی ریاست بننے کا مطالبہ کیا ہے – ایک ایسی پوزیشن جس نے بہت سے کینیڈینوں کو ناراض کر دیا ہے۔

کارنی، جو کینیڈا کی لبرل پارٹی کی قیادت کرتے ہیں، نے مزید کہا کہ 1965 میں دستخط شدہ اہم کینیڈا-یو ایس آٹوموٹیو پراڈکٹس کا معاہدہ ٹیرف کے نتیجے میں “ختم” ہو گیا ہے۔

اس نے امریکہ پر “زیادہ سے زیادہ اثر” کے ساتھ جوابی ٹیرف لگانے کا عزم بھی کیا۔

**عنوان: ٹرمپ اور یوکے لیڈر نے جاری یو ایس چین ٹیرف وار کے درمیان پہلی کال کی: داؤ پر کیا ہے؟**

**تعارف**
بڑھتے ہوئے عالمی تجارتی تناؤ کے درمیان، سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور برطانیہ کے ایک سینئر رہنما (نوٹ: ممکنہ طور پر برطانیہ کے ایک اہلکار کا حوالہ، اگرچہ “کارنی” کا نام غلط بیانی ہو سکتا ہے*) نے حال ہی میں اپنی پہلی براہ راست گفتگو کی، جس سے مفادات کی ممکنہ صف بندی کا اشارہ ملتا ہے کیونکہ یو ایس چین ٹیرف کی جنگ پوری دنیا میں دوبارہ گونج رہی ہے۔ اگرچہ بات چیت کی تفصیلات بہت کم ہیں، یہ مکالمہ اقوام کے لیے تحفظ پسند پالیسیوں کے پیچیدہ نتائج پر تشریف لے جانے اور تیزی سے ٹوٹتے ہوئے تجارتی منظر نامے میں اتحاد تلاش کرنے کی فوری ضرورت پر زور دیتا ہے۔

** سیاق و سباق: امریکہ چین تجارتی جنگ **
2018 میں ٹرمپ انتظامیہ کے تحت شروع کی گئی یو ایس چین ٹیرف جنگ نے عالمی سپلائی چینز کو نئی شکل دی ہے، منڈیوں میں خلل ڈالا ہے اور جغرافیائی سیاسی دشمنیوں کو ہوا دی ہے۔ 2020 میں عارضی جنگ بندی کے باوجود، کشیدگی برقرار ہے، دونوں ممالک سٹیل سے لے کر الیکٹرانکس تک کی اشیا پر اربوں کے محصولات برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ بائیڈن انتظامیہ نے قومی سلامتی اور غیر منصفانہ تجارتی طریقوں کا حوالہ دیتے ہوئے بڑے پیمانے پر ان محصولات کو برقرار رکھا ہے، جبکہ چین نے اپنے اقدامات سے جوابی کارروائی کی ہے۔

اس پس منظر میں، برطانیہ جیسے ممالک – جو کہ بریکسٹ کے بعد کی تجارتی غیر یقینی صورتحال سے نبردآزما ہیں – اقتصادی لچک کو بڑھانے کے لیے شراکت داری کے خواہاں ہیں۔

**ٹرمپ-کارنی کال: کلیدی ٹیک ویز**
اگرچہ “کارنی” کی صحیح شناخت ابھی تک واضح نہیں ہے (ممکنہ طور پر بینک آف انگلینڈ کے سابق گورنر مارک کارنی کے ساتھ تصادم یا برطانیہ کی کسی سیاسی شخصیت کا غلط حوالہ)
1. **مشترکہ تجارتی ترجیحات**: امریکہ-برطانیہ کے اقتصادی تعلقات کو مضبوط بنانا کیونکہ دونوں ممالک چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا مقابلہ کر رہے ہیں۔
2. **بریگزٹ کے بعد کے مواقع**: امریکہ کے ساتھ دوطرفہ تجارتی معاہدے کے برطانیہ کے حصول، جو کہ Brexit کے بعد سے ایک ترجیح ہے، پر نظرثانی کی جا سکتی ہے۔
3. **ٹیرف اسٹریٹجی کوآرڈینیشن**: ان کی گھریلو صنعتوں پر امریکی-چین ٹیرف کے اثرات کو کم کرنے کے لیے نقطہ نظر کو ہم آہنگ کرنا۔

**یہ کیوں اہم ہے**
– **عالمی سپلائی چینز**: طویل ٹیرف نے کاروباروں کو آپریشنز کو دوبارہ ترتیب دینے پر مجبور کیا ہے، جس سے صارفین کی لاگت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ امریکہ-برطانیہ کا مربوط موقف آٹوموٹیو اور ٹیک جیسے اہم شعبوں پر دباؤ کو کم کر سکتا ہے۔
– **سفارتی فائدہ**: متحد مغربی تجارتی پالیسیاں چین کے ساتھ مذاکرات کو مضبوط بنا سکتی ہیں، اگرچہ مزید کشیدگی کے خطرات باقی ہیں۔
– **ملکی سیاست**: امریکہ کے لیے، چینی درآمدات پر انحصار کو کم کرنا دو طرفہ اہداف کے مطابق ہے۔ برطانیہ کے لیے، امریکی تجارتی معاہدے کو حاصل کرنا بریگزٹ سے متعلق معاشی نقصانات کو پورا کرنے کے لیے اہم ہے۔

**ماہرین کے رد عمل**
ماہرین اقتصادیات خبردار کرتے ہیں کہ اگرچہ اتحاد قلیل مدتی ریلیف پیش کر سکتے ہیں، طویل مدتی حل کے لیے کثیر جہتی تعاون کی ضرورت ہے۔ تجارتی پالیسی کے تجزیہ کار ڈاکٹر ایملی ہیرس نے نوٹ کیا، “یکطرفہ محصولات ایک دو ٹوک آلہ ہیں۔ اتحادیوں کے درمیان بات چیت مثبت ہے، لیکن املاک دانش کی چوری اور مارکیٹ تک رسائی جیسے نظاماتی مسائل کو حل کرنا وسیع اتفاق رائے کا مطالبہ کرتا ہے۔”

**آگے دیکھ رہے ہیں**
ٹرمپ-کارنی کال ٹرمپ کی صدارت کے بعد بھی تجارتی سفارت کاری کی پائیدار مطابقت کو اجاگر کرتی ہے۔ جیسا کہ 2024 کے امریکی انتخابات کا آغاز ہو رہا ہے، تجارتی پالیسی ایک متنازعہ مسئلہ رہے گی، امیدواروں کے ممکنہ طور پر معاشی قوم پرستی بمقابلہ عالمی تعاون کے گرد اپنی حکمت عملی وضع کرنے کا امکان ہے۔ برطانیہ کے لیے، امریکہ اور یورپی یونین کے ساتھ تعلقات کو متوازن کرنا — چین کے تعلقات کو سنبھالتے ہوئے — ایک نازک عمل ہوگا۔

**نتیجہ**
اگرچہ ابہام اس مکالمے کی تفصیلات کو گھیرے ہوئے ہیں، لیکن اس کی علامت واضح ہے: تجارتی جنگوں سے نئی شکل دینے والی دنیا میں، قومیں اسٹریٹجک شراکت داری قائم کرنے پر مجبور ہیں۔ آیا اس طرح کی کوششیں ٹیرف کے اثرات کو کم کر سکتی ہیں — یا مزید ٹکڑے ٹکڑے ہونے کا خطرہ — دیکھنا باقی ہے۔

*وضاحت: “کارنی” کا حوالہ غلطی ہو سکتا ہے۔ مارک کارنی (بینک آف انگلینڈ کے سابق گورنر) برطانیہ کے موجودہ پالیسی ساز نہیں ہیں۔ تجارتی مذاکرات کے تناظر میں، کال میں ممکنہ طور پر برطانیہ کی ایک سینئر سیاسی شخصیت شامل تھی۔*

“رازنگ فرام دی ایشز: پاکستان کرکٹ کا دفاع، ڈرامہ، اور چھٹکارے کی تلاش”

“رازنگ فرام دی ایشز: پاکستان کرکٹ کا دفاع، ڈرامہ، اور چھٹکارے کی تلاش”

پاکستان میں کرکٹ صرف ایک کھیل سے زیادہ نہیں ہے - یہ دل کی دھڑکن ہے جو لاکھوں لوگوں کو متحد کرتی ہے۔ پاکستان کرکٹ ٹیم، جو اپنی غیر متوقع صلاحیت اور ذہانت کے لیے مشہور ہے، حال ہی میں شہ سرخیوں میں رہی ہے، شائقین ان کی کارکردگی، تنازعات اور مستقبل کے امکانات کو بے تابی سے دیکھ رہے ہیں۔ آئیے مین ان گرین کے ارد گرد تازہ ترین اپ ڈیٹس میں غوطہ لگائیں۔

****

پاکستان میں کرکٹ صرف ایک کھیل سے زیادہ نہیں ہے – یہ دل کی دھڑکن ہے جو لاکھوں لوگوں کو متحد کرتی ہے۔ پاکستان کرکٹ ٹیم، جو اپنی غیر متوقع صلاحیت اور ذہانت کے لیے مشہور ہے، حال ہی میں شہ سرخیوں میں رہی ہے، شائقین ان کی کارکردگی، تنازعات اور مستقبل کے امکانات کو بے تابی سے دیکھ رہے ہیں۔ آئیے مین ان گرین کے ارد گرد تازہ ترین اپ ڈیٹس میں غوطہ لگائیں۔

### **1۔ T20 ورلڈ کپ 2024: ایک راکی شروعات**
جاری آئی سی سی T20 ورلڈ کپ 2024 پاکستان کے لیے ایک رولر کوسٹر رہا ہے۔ اپنے افتتاحی میچ میں USA کو چونکا دینے والی شکست کے بعد — ایک تاریخی اپ سیٹ — ٹیم کو روایتی حریف بھارت کے خلاف کیل کاٹنے والے تصادم میں ایک اور دل شکستہ سامنا کرنا پڑا۔ محمد رضوان کی دلیرانہ کوشش اور عماد وسیم کے دیر سے اضافے کے باوجود، پاکستان کم اسکورنگ سنسنی خیز مقابلے میں 6 رنز سے گر گیا۔

** اہم نکات **:
– **بیٹنگ کی جدوجہد**: ہندوستان کے خلاف مڈل آرڈر کے خاتمے نے مستقل مزاجی کے ساتھ مستقل مسائل کو اجاگر کیا۔ فخر زمان اور افتخار احمد جیسے کھلاڑی اننگز کو اینکر کرنے میں ناکام رہنے کی وجہ سے جانچ کی زد میں ہیں۔
– **باؤلنگ کے روشن مقامات**: شاہین آفریدی اور نسیم شاہ غیر معمولی رہے ہیں، لیکن ڈیتھ اوورز میں حارث رؤف کے مہنگے اسپیل تشویش کا باعث ہیں۔
– **Super 8 Hopes**: دو ہاروں کے ساتھ، پاکستان کے سپر 8 مرحلے میں آگے بڑھنے کے امکانات اب دوسرے نتائج پر منحصر ہیں — ایک منظر نامہ شائقین 2022 ورلڈ کپ سے بخوبی جانتے ہیں۔

### **2۔ کپتانی کا معمہ: بابر اعظم آگ میں **
ٹیم کی متزلزل پرفارمنس کے بعد بابر اعظم کی قیادت کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔ اگرچہ اس کی بیٹنگ عالمی معیار کی ہے (اس نے ہندوستان کے خلاف 42 رنز بنائے)، اس کے حکمت عملی کے فیصلوں کے بارے میں سوالات باقی ہیں، جیسے کہ نازک لمحات میں شاہین آفریدی کے اوورز میں تاخیر کرنا۔

**آگے کیا ہے؟**
افواہیں بتاتی ہیں کہ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) ورلڈ کپ کے بعد بابر کی کپتانی پر نظر ثانی کر سکتا ہے، خاص طور پر شاہین آفریدی یا محمد رضوان جیسے نوجوان لیڈروں کے انتظار میں۔ تاہم، بابر کا پرسکون رویہ اور بلے بازی کی صلاحیت اسے اب بھی آنے والی ODI چیمپئنز ٹرافی 2025 میں قیادت کرنے کے لیے ایک مضبوط دعویدار بناتی ہے۔

### **3۔ انجریز اور اسکواڈ میں تبدیلیاں**
ٹیم کو حال ہی میں چوٹوں نے دوچار کیا ہے:
– **عماد وسیم**: آل راؤنڈر کو یو ایس اے میچ کے دوران پسلی کی چوٹ لگی تھی، جس سے ٹورنامنٹ کے بقیہ حصے میں ان کی دستیابی کے بارے میں خدشات بڑھ گئے تھے۔
– **محمد عامر**: تجربہ کار تیز گیند باز کی بین الاقوامی کرکٹ میں واپسی متاثر کن رہی ہے، ناقدین عباس آفریدی جیسے نوجوان ٹیلنٹ پر ان کے انتخاب پر سوال اٹھا رہے ہیں۔

دریں اثنا، پی سی بی نے لیگ اسپنر اسامہ میر کو شاداب خان کے لیے بیک اپ کے طور پر طلب کیا ہے، جن کی فارم بلے اور گیند دونوں سے خطرناک حد تک گر گئی ہے۔

### **4۔ آف فیلڈ ڈرامہ: پی سی بی کی میوزیکل چیئرز جاری **
کوچز اور سلیکٹرز کے لیے پی سی بی کی ریوالنگ ڈور پالیسی ایک گرما گرم موضوع بنی ہوئی ہے۔ گیری کرسٹن کو وائٹ بال کوچ اور جیسن گلیسپی کو ریڈ بال کوچ مقرر کرنے کے بعد توقعات بہت زیادہ تھیں۔ تاہم، ورلڈ کپ سے قبل کرسٹن کے اسکواڈ کے ساتھ محدود وقت نے تیاری کے بارے میں بحث کو جنم دیا ہے۔

**شائقین کے ردعمل**:
سوشل میڈیا طویل المدتی منصوبہ بندی کے فقدان پر مایوسی سے بھرا ہوا ہے۔ پی سی بی کی بار بار قیادت کی تبدیلیوں اور “تجرباتی” اسکواڈ کے انتخاب کے بارے میں میمز وائرل ہو گئے ہیں، جو عوام کی بے صبری کی عکاسی کرتے ہیں۔

### **5۔ آگے دیکھ رہے ہیں: چیمپئنز ٹرافی 2025 اور اس سے آگے**
پاکستان 2025 میں آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی کی میزبانی کرنے کے لیے تیار ہے — یہ ایک سنہری موقع ہے کہ وہ ون ڈے میں اپنے آپ کو چھڑا سکے۔ پی سی بی انگلینڈ، آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کے خلاف بینچ کی طاقت کو جانچنے کے لیے دوطرفہ سیریز شیڈول کرنے کے ساتھ پہلے سے ہی تیاریاں جاری ہیں۔

**دیکھنے والے کھلاڑی**:
– **محمد حارث**: جارحانہ اوپنر مڈل آرڈر میں گیم چینجر ہو سکتا ہے۔
– **ابرار احمد**: اسرار اسپنر کو ٹیسٹ اور ون ڈے میں مزید مواقع مل سکتے ہیں۔

### **حتمی خیالات**
پاکستان کرکٹ ٹیم لچک کا مظاہرہ کرتی ہے، لیکن حالیہ پرفارمنس اسٹریٹجک اوور ہال کی ضرورت پر زور دیتی ہے۔ جب کہ T20 ورلڈ کپ کی مہم ایک دھاگے سے لٹکی ہوئی ہے، شائقین معجزانہ تبدیلی کے لیے پر امید ہیں۔ آخرکار، یہ پاکستان ہے—ایک ایسی ٹیم جو اس وقت پروان چڑھتی ہے جب ان کے خلاف مشکلات کا ڈھیر لگا دیا جاتا ہے۔

جیسا کہ لیجنڈ وسیم اکرم نے ایک بار کہا تھا، *”آخری گیند تک پاکستان کو کبھی نہ لکھیں”* آئیے ایمان کو زندہ رکھیں!


**مزید اپ ڈیٹس کے لیے ہمارے ساتھ رہیں، اور تبصروں میں اپنے خیالات کا اشتراک کریں: کیا پاکستان واپس اچھال سکتا ہے، یا یہ دوبارہ تعمیر کا وقت ہے؟** 🏏