کیا امریکہ نے ایران کے ایٹمی ہتھیار کو کامیابی سے تباہ کر دیا ہے؟

ایران کے ایٹمی ہتھیار b2 bomber

کافی لوگ آج یہ سوال کر رہے ہیں: کیا امریکہ نے ایران کا جوہری پروگرام واقعی مکمل تباہ کر دیا ہے؟ تو بطور ایک پی ایچ ڈی فزکس اور سائنس کا طلب علم، مجھے لگا کہ یہ بات سادہ اور عام فہم انداز میں سب کو

کیا امریکہ نے ایران کے ایٹمی ہتھیار کو کامیابی سے تباہ کر دیا ہے؟
ایران کے ایٹمی ہتھیار
سمجھانی چاہیے۔ دیکھیں… نیوکلیئر پروگرام کوئی چھوٹا موٹا پروجیکٹ نہیں ہوتا، یہ کوئی لیب کا کمرہ نہیں، اور نہ ہی کوئی بریف کیس ہے کہ خطرہ محسوس ہو تو اٹھا کر کہیں اور رکھ دیا جائے۔ یہ ایک پورا سسٹم ہوتا ہے۔ ہزاروں سینٹری فیوجز، میلوں لمبی پائپنگ، حساس درجہ حرارت اور دباؤ پر چلنے والے کنٹرول سسٹم، خاص قسم کی بجلی کی فراہمی، اور ایک ایسا ماحول جو عام فیکٹری میں نہیں بنایا جا سکتا۔

امریکہ نے جن جگہوں پر حملہ کیا، جیسے نطنز اور فردو، وہ عام عمارتیں نہیں تھیں، بلکہ ایسی تنصیبات تھیں جہاں ایران یورینیم کو طاقتور بناتا ہے۔ یہ مراکز زمین کے اندر، پہاڑوں کے نیچے، سخت چٹانوں میں چھپائے گئے تھے تاکہ کسی حملے کی صورت میں بھی آسانی سے تباہ نہ ہو سکیں۔ لوگ کہتے ہیں، “امریکہ نے بنکر بسٹر بم پھینکے ہیں، جو زمین کے اندر 50-60 میٹر تک جا کے دھماکہ کر سکتے ہیں!” ہاں، ایسی ٹیکنالوجی ہے، لیکن ایک یا دو بم پوری تنصیب کو تباہ نہیں کر سکتے خاص طور پر جب وہ جگہ پہلے سے حفاظتی لحاظ سے مضبوط بنائی گئی ہو۔ سیٹلائٹ کی تصویریں اور عالمی رپورٹس بھی یہی بتا رہی ہیں کہ صرف اوپر کی عمارتیں متاثر ہوئیں، اصل مشینری، جو زمین کے اندر ہے، وہ ابھی بھی اپنی جگہ پر موجود ہے۔ اور رہی بات ریڈیایشن یعنی طابکاری کی؟ تو بھائی، جب وہاں کوئی ایکٹیو جوہری ری ایکٹر ہی نہیں تھا، نہ کوئی فیول راڈز، نہ کوئی زنجیری تعامل تو تابکاری (ریڈیایشن) کہاں سے پھیلتی؟ تو کیا ایران کا نیوکلیئر پروگرام ختم ہو گیا؟ نہیں۔ نہ ختم ہوا ہے، نہ اتنی آسانی سے ختم ہو گا۔ ایران کے پاس ابھی بھی: یورینیم ہے، سینٹری فیوجز ہیں، سائنس دان موجود ہیں، سسٹم کا ڈیزائن ہے، اور سب سے بڑھ کر عزم اور وقت ہے۔ اور یہ پانچ چیزیں کافی ہوتی ہیں کسی بھی نیوکلیئر پروگرام کو دوبارہ کھڑا کرنے کے لیے۔

اگر ایران کے کسی ایٹمی پلانٹ کو مکمل طور پر تباہ کر دیا جائے، تو اس کے اثرات صرف ایران تک محدود نہیں رہیں گے۔ دھماکے کی شدت، ہوا کی سمت اور موسم کے لحاظ سے تابکاری کے اثرات عراق، افغانستان، پاکستان، خلیجی ممالک (سعودی عرب، کویت، بحرین، قطر، یو اے ای)، ترکی اور وسطی ایشیائی ممالک (جیسے ترکمانستان، ازبکستان) تک پہنچ سکتے ہیں۔ فضا میں موجود تابکار ذرات ہزاروں کلومیٹر دور تک بھی جا سکتے ہیں، اور اگر تابکاری پانی میں شامل ہو جائے تو سمندر کے راستے اس کا دائرہ اور بھی وسیع ہو سکتا ہے۔ چرنوبل اور فوکوشیما جیسے واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ ایٹمی تباہی صرف ایک قوم یا ایک سرحد تک محدود نہیں رہتی بلکہ یہ پوری دنیا کے لیے خطرہ بن جاتی ہے۔ اس لیے جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ “سب کچھ ختم ہو گیا” تو ان سے بس اتنا کہنا ہے: یہ فلم نہیں، یہ نیو کلئیر فزکس ہے۔ زیادہ سے زیادہ شئیر کریں تاکہ عام عوام کو بھی سادہ الفاظ میں یہ بات سمجھ آ جائے۔ تحریر ڈاکٹر ملک کاشف مسعود

ایران کے ایٹمی ہتھیار
کیا امریکہ نے ایران کے ایٹمی ہتھیار کو کامیابی سے تباہ کر دیا ہے؟

امریکہ نے جن جگہوں پر حملہ کیا، جیسے نطنز اور فردو، وہ عام عمارتیں نہیں تھیں، بلکہ ایسی تنصیبات تھیں جہاں ایران یورینیم کو طاقتور بناتا ہے۔ یہ مراکز زمین کے اندر، پہاڑوں کے نیچے، سخت چٹانوں میں چھپائے گئے تھے تاکہ کسی حملے کی صورت میں بھی آسانی سے تباہ نہ ہو سکیں۔ لوگ کہتے ہیں، “امریکہ نے بنکر بسٹر بم پھینکے ہیں، جو زمین کے اندر 50-60 میٹر تک جا کے دھماکہ کر سکتے ہیں!” ہاں، ایسی ٹیکنالوجی ہے، لیکن ایک یا دو بم پوری تنصیب کو تباہ نہیں کر سکتے خاص طور پر جب وہ جگہ پہلے سے حفاظتی لحاظ سے مضبوط بنائی گئی ہو۔ سیٹلائٹ کی تصویریں اور عالمی رپورٹس بھی یہی بتا رہی ہیں کہ صرف اوپر کی عمارتیں متاثر ہوئیں، اصل مشینری، جو زمین کے اندر ہے، وہ ابھی بھی اپنی جگہ پر موجود ہے۔ اور رہی بات ریڈیایشن یعنی طابکاری کی؟ تو بھائی، جب وہاں کوئی ایکٹیو جوہری ری ایکٹر ہی نہیں تھا، نہ کوئی فیول راڈز، نہ کوئی زنجیری تعامل تو تابکاری (ریڈیایشن) کہاں سے پھیلتی؟ تو کیا ایران کا نیوکلیئر پروگرام ختم ہو گیا؟ نہیں۔ نہ ختم ہوا ہے، نہ اتنی آسانی سے ختم ہو گا۔ ایران کے پاس ابھی بھی: یورینیم ہے، سینٹری فیوجز ہیں، سائنس دان موجود ہیں، سسٹم کا ڈیزائن ہے، اور سب سے بڑھ کر عزم اور وقت ہے۔ اور یہ پانچ چیزیں کافی ہوتی ہیں کسی بھی نیوکلیئر پروگرام کو دوبارہ کھڑا کرنے کے لیے۔

کیا امریکہ نے ایران کے ایٹمی ہتھیار کو کامیابی سے تباہ کر دیا ہے؟

اگر ایران کے کسی ایٹمی پلانٹ کو مکمل طور پر تباہ کر دیا جائے، تو اس کے اثرات صرف ایران تک محدود نہیں رہیں گے۔ دھماکے کی شدت، ہوا کی سمت اور موسم کے لحاظ سے تابکاری کے اثرات عراق، افغانستان، پاکستان، خلیجی ممالک (سعودی عرب، کویت، بحرین، قطر، یو اے ای)، ترکی اور وسطی ایشیائی ممالک (جیسے ترکمانستان، ازبکستان) تک پہنچ سکتے ہیں۔ فضا میں موجود تابکار ذرات ہزاروں کلومیٹر دور تک بھی جا سکتے ہیں، اور اگر تابکاری پانی میں شامل ہو جائے تو سمندر کے راستے اس کا دائرہ اور بھی وسیع ہو سکتا ہے۔ چرنوبل اور فوکوشیما جیسے واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ ایٹمی تباہی صرف ایک قوم یا ایک سرحد تک محدود نہیں رہتی بلکہ یہ پوری دنیا کے لیے خطرہ بن جاتی ہے۔ اس لیے جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ “سب کچھ ختم ہو گیا” تو ان سے بس اتنا کہنا ہے: یہ فلم نہیں، یہ نیو کلئیر فزکس ہے۔ زیادہ سے زیادہ شئیر کریں تاکہ عام عوام کو بھی سادہ الفاظ میں یہ بات سمجھ آ جائے۔ تحریر ڈاکٹر ملک کاشف مسعود

کیا امریکہ نے ایران کے ایٹمی ہتھیار کو کامیابی سے تباہ کر دیا ہے؟

اسرائیلی میڈیا: اسلامی جمہوریہ کے ایٹمی پروگرام کا ایک ایجنٹ تہران میں ڈرون حملے میں مارا گیا۔

اسرائیلی میڈیا: اسلامی جمہوریہ کے ایٹمی پروگرام کا ایک ایجنٹ تہران میں ڈرون حملے میں مارا گیا۔

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں اسلامی جمہوریہ کے وزیر خارجہ نے ایران کی ایٹمی تنصیبات پر اسرائیل کے حملے کو جنگی جرم قرار دیا اور کہا کہ اسلامی جمہوریہ کو سفارتی عمل کے درمیان نشانہ بنایا گیا۔
اسرائیلی میڈیا: اسلامی جمہوریہ کے ایٹمی پروگرام کا ایک ایجنٹ تہران میں ڈرون حملے میں مارا گیا۔

**تاریخ:** 29 اکتوبر 2024 (نوٹ: یہ واقعہ اپریل 2024 میں پیش آیا)

**تعارف:** تہران میں حالیہ ڈرون حملے کے نتیجے میں ایک ایرانی انجینئر مہدی ہوشیارنیزاد کی موت واقع ہوئی ہے، جس سے اس کے کردار اور واقعے کی نوعیت کے بارے میں متضاد داستانیں جنم لے رہی ہیں۔ جب کہ ایران کے سرکاری میڈیا نے ایک صنعتی حادثے کی اطلاع دی، مغربی اور اسرائیلی ذرائع نے الزام لگایا کہ وہ ایران کے جوہری پروگرام میں ایک اہم شخصیت تھا جسے ایک قاتلانہ کارروائی کا نشانہ بنایا گیا۔

**واقعہ:**
6 اپریل 2024 کو تہران کے مشرقی شہریار ضلع میں ایک چھوٹے ڈرون نے ایک عمارت کو نشانہ بنایا۔ ایرانی سرکاری میڈیا بشمول سرکاری IRNA نیوز ایجنسی نے مہدی ہوشیارنیزاد کی موت کی تصدیق کی ہے، جس کی شناخت ایرانی وزارت دفاع کے لیے کام کرنے والے انجینئر کے طور پر کی گئی ہے۔ ابتدائی ایرانی رپورٹس میں اس واقعہ کو ایک **”صنعتی حادثہ”** قرار دیا گیا ہے جو وزارت سے وابستہ ایک تحقیقی مرکز میں کواڈ کاپٹر ڈرون سسٹم کے ٹیسٹ کے دوران پیش آیا۔

**الزام:**
ایران کے سرکاری اکاؤنٹ کے برعکس، متعدد مغربی اور اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے انٹیلی جنس ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا کہ حوثی نژاد کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا۔ **نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ، اور دی ٹائمز آف لندن نے نامعلوم امریکی اور اسرائیلی حکام کا حوالہ دیتے ہوئے اطلاع دی ہے کہ یہ حملہ ایک اسرائیلی آپریشن تھا۔** ان ذرائع نے الزام لگایا کہ ہوشیارنیجاد محض ایک دفاعی انجینئر نہیں تھا بلکہ **ایران کے جوہری پروگرام میں ملوث ایک اہم شخصیت تھا**، خاص طور پر بغیر پائلٹ کی فضائی گاڑیوں کی تیاری سے منسلک تھا۔ انوویشن اینڈ ریسرچ (SPND)، ایران کے ماضی کے جوہری ہتھیاروں کی تحقیق میں اس کے کردار کے لیے امریکہ کی طرف سے منظور شدہ ادارہ۔

*** ماخذ:** “دی نیویارک ٹائمز نے 19 اپریل 2024 کو ‘تین سینئر اسرائیلی عہدیداروں’ کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا کہ اسرائیل نے یہ حملہ کیا تھا اور ہوشیارنیزاد ایران کے جوہری پروگرام کے اندر ‘خفیہ منصوبے کا انچارج’ تھا جس میں کواڈ کاپٹروں کی تیاری شامل تھی۔” (NYT: [ایران کا کہنا ہے کہ ڈرون حملے میں انجینئر مارا گیا، لیکن اسرائیل اسے جوہری کام قرار دیتا ہے](https://www.nytimes.com/2024/04/19/world/middleeast/iran-israel-drone-strike-nuclear.html))
* **ماخذ:** “واشنگٹن پوسٹ نے اسی طرح 19 اپریل کو ‘امریکی اور اسرائیلی حکام’ کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا کہ اسرائیل نے یہ حملہ کیا تھا اور یہ کہ ہدف ‘ایران کے جوہری پروگرام کی ایک اہم شخصیت تھی۔’ کہنا](https://www.washingtonpost.com/national-security/2024/04/19/israel-iran-nuclear-strike/))
* **ذریعہ:** “دی ٹائمز آف لندن نے بھی اسرائیلی دعوے کی خبر دی، جس میں ہوشیارنیجاد کو ایس پی این ڈی سے جوڑا گیا۔” (دی ٹائمز: [اسرائیل نے اعلیٰ ایرانی جوہری سائنسدان کو ڈرون حملے میں ہلاک کر دیا]

**ایران کا جواب:**
ایرانی حکام نے جوہری پروگرام سے مبینہ تعلق کی سختی سے تردید کی۔ وزارتِ دفاع نے ایک بیان جاری کیا جس میں ہوشیارنیزاد کو “دفاعی صنعت کے ماہر” کے طور پر سوگ کیا گیا اور اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ یہ واقعہ دفاعی نظام پر معمول کی تحقیق اور ترقی کی سرگرمیوں کے دوران ایک حادثہ تھا۔ انہوں نے مغربی/اسرائیلی رپورٹس کو “بے بنیاد الزامات” اور ایران کے خلاف “نفسیاتی جنگ” کا حصہ قرار دے کر مسترد کر دیا۔

**مہدی ہوشیارنیزاد کون تھا؟**
Hoshiarnejad کے بارے میں عوامی معلومات محدود ہیں۔ ایران کے سرکاری میڈیا نے انہیں دفاعی انجینئر بتایا۔ انٹیلی جنس تشخیص پر مبنی مغربی رپورٹس نے انہیں SPND کے اندر ایک سینئر شخصیت کے طور پر پیش کیا، جس میں جدید ڈرون ٹیکنالوجی کی ترقی پر توجہ مرکوز کی گئی، ممکنہ طور پر جوہری سلامتی یا ترسیل کے نظام سے متعلق ایپلی کیشنز کے لیے۔ جوہری سے متعلق کسی بھی پروجیکٹ میں اس کا صحیح کردار IAEA جیسے بین الاقوامی اداروں کے ذریعہ عوامی طور پر غیر مصدقہ ہے۔

**سیاق و سباق:**
یہ واقعہ ایک دیرینہ نمونہ کے مطابق ہے:
1. **شیڈو وار:** اسرائیل اور ایران برسوں سے ایک خفیہ تنازعہ میں مصروف ہیں، جس میں سائبر حملے، قتل اور تخریب کاری شامل ہے، جو اکثر ایران کے جوہری اور میزائل پروگراموں کو نشانہ بناتے ہیں۔
2. **ایٹمی سائنسدانوں کا قتل:** گزشتہ دہائی کے دوران متعدد ایرانی جوہری سائنسدانوں کو قتل کیا گیا ہے (مثلاً، 2020 میں محسن فخر زادہ)، جس کا بڑے پیمانے پر اسرائیل کو ذمہ دار سمجھا جاتا ہے، حالانکہ وہ اس طرح کی کارروائیوں کی شاذ و نادر ہی تصدیق کرتا ہے۔
3. **ڈرون وارفیئر:** دونوں ممالک فعال طور پر ڈرون تیار اور تعینات کرتے ہیں، UAV ٹیکنالوجی اور ماہرین کو اسٹریٹجک اہداف بناتے ہیں۔

**موجودہ صورتحال:**
* کسی گروپ یا ریاست نے سرکاری طور پر حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔
* اسرائیل اس طرح کی کارروائیوں میں ملوث ہونے کی نہ تو تصدیق اور نہ ہی تردید کی اپنی دیرینہ پالیسی پر قائم ہے۔
* انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (IAEA) نے عوامی طور پر جوہری پروگرام میں ہوشیارنیزاد کے مبینہ کردار پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
* ایرانی تحقیقات نے سرکاری طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ ایک حادثہ تھا۔

**نتیجہ:**
مہدی حوثیہ کی وفات