
ٹرمپ نے اس ہفتے کے شروع میں تمام غیر ملکی ساختہ کاروں پر 25 فیصد ٹیرف کا اعلان کیا، جس سے کینیڈا کی طرف سے ناراض ردعمل سامنے آیا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ شمالی امریکہ کے دو اتحادیوں کے درمیان جاری ٹیرف کی جنگ کے درمیان، کینیڈا کے وزیر اعظم مارک کارنی کے ساتھ ان کی پہلی “انتہائی نتیجہ خیز” کال تھی۔
ایک سچائی کی سماجی پوسٹ میں، ٹرمپ نے کہا کہ دونوں 28 اپریل کو کینیڈا کے آئندہ انتخابات کے بعد “فوری طور پر” ملاقات کریں گے اور “سیاست، کاروبار اور دیگر تمام عوامل” پر بات چیت کریں گے۔
ٹرمپ کا امریکہ میں گاڑیوں کی درآمد پر 25 فیصد ٹیرف کا منصوبہ اگلے ہفتے سے نافذ ہونا ہے اور یہ کینیڈین کار انڈسٹری کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔
جمعرات کی شام، کارنی نے کہا کہ امریکہ “اب ایک قابل اعتماد تجارتی پارٹنر نہیں رہا” اور یہ کہ امریکہ اور کینیڈا کے تعلقات ہمیشہ کے لیے “بنیادی طور پر مختلف” رہیں گے۔
نئے وزیر اعظم، جو اپنی انتخابی مہم کے درمیان ہیں، نے ابھی تک ٹرمپ کے ساتھ کال پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
تاریخی طور پر، کینیڈین رہنماؤں نے وزیر اعظم بننے کے فوراً بعد اپنے امریکی ہم منصب سے فون کو ترجیح دی ہے۔
کارنی اور ٹرمپ کے درمیان کال، تاہم، کارنی کے 14 فروری کو اقتدار سنبھالنے کے بعد یہ پہلا فون ہے۔
ٹیرف پر کینیڈا کے ساتھ تجارتی جنگ شروع کرنے کے علاوہ، ٹرمپ نے بار بار کینیڈا کو 51 ویں امریکی ریاست بننے کا مطالبہ کیا ہے – ایک ایسی پوزیشن جس نے بہت سے کینیڈینوں کو ناراض کر دیا ہے۔
کارنی، جو کینیڈا کی لبرل پارٹی کی قیادت کرتے ہیں، نے مزید کہا کہ 1965 میں دستخط شدہ اہم کینیڈا-یو ایس آٹوموٹیو پراڈکٹس کا معاہدہ ٹیرف کے نتیجے میں “ختم” ہو گیا ہے۔
اس نے امریکہ پر “زیادہ سے زیادہ اثر” کے ساتھ جوابی ٹیرف لگانے کا عزم بھی کیا۔
**عنوان: ٹرمپ اور یوکے لیڈر نے جاری یو ایس چین ٹیرف وار کے درمیان پہلی کال کی: داؤ پر کیا ہے؟**
**تعارف**
بڑھتے ہوئے عالمی تجارتی تناؤ کے درمیان، سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور برطانیہ کے ایک سینئر رہنما (نوٹ: ممکنہ طور پر برطانیہ کے ایک اہلکار کا حوالہ، اگرچہ “کارنی” کا نام غلط بیانی ہو سکتا ہے*) نے حال ہی میں اپنی پہلی براہ راست گفتگو کی، جس سے مفادات کی ممکنہ صف بندی کا اشارہ ملتا ہے کیونکہ یو ایس چین ٹیرف کی جنگ پوری دنیا میں دوبارہ گونج رہی ہے۔ اگرچہ بات چیت کی تفصیلات بہت کم ہیں، یہ مکالمہ اقوام کے لیے تحفظ پسند پالیسیوں کے پیچیدہ نتائج پر تشریف لے جانے اور تیزی سے ٹوٹتے ہوئے تجارتی منظر نامے میں اتحاد تلاش کرنے کی فوری ضرورت پر زور دیتا ہے۔
** سیاق و سباق: امریکہ چین تجارتی جنگ **
2018 میں ٹرمپ انتظامیہ کے تحت شروع کی گئی یو ایس چین ٹیرف جنگ نے عالمی سپلائی چینز کو نئی شکل دی ہے، منڈیوں میں خلل ڈالا ہے اور جغرافیائی سیاسی دشمنیوں کو ہوا دی ہے۔ 2020 میں عارضی جنگ بندی کے باوجود، کشیدگی برقرار ہے، دونوں ممالک سٹیل سے لے کر الیکٹرانکس تک کی اشیا پر اربوں کے محصولات برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ بائیڈن انتظامیہ نے قومی سلامتی اور غیر منصفانہ تجارتی طریقوں کا حوالہ دیتے ہوئے بڑے پیمانے پر ان محصولات کو برقرار رکھا ہے، جبکہ چین نے اپنے اقدامات سے جوابی کارروائی کی ہے۔
اس پس منظر میں، برطانیہ جیسے ممالک – جو کہ بریکسٹ کے بعد کی تجارتی غیر یقینی صورتحال سے نبردآزما ہیں – اقتصادی لچک کو بڑھانے کے لیے شراکت داری کے خواہاں ہیں۔
**ٹرمپ-کارنی کال: کلیدی ٹیک ویز**
اگرچہ “کارنی” کی صحیح شناخت ابھی تک واضح نہیں ہے (ممکنہ طور پر بینک آف انگلینڈ کے سابق گورنر مارک کارنی کے ساتھ تصادم یا برطانیہ کی کسی سیاسی شخصیت کا غلط حوالہ)
1. **مشترکہ تجارتی ترجیحات**: امریکہ-برطانیہ کے اقتصادی تعلقات کو مضبوط بنانا کیونکہ دونوں ممالک چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا مقابلہ کر رہے ہیں۔
2. **بریگزٹ کے بعد کے مواقع**: امریکہ کے ساتھ دوطرفہ تجارتی معاہدے کے برطانیہ کے حصول، جو کہ Brexit کے بعد سے ایک ترجیح ہے، پر نظرثانی کی جا سکتی ہے۔
3. **ٹیرف اسٹریٹجی کوآرڈینیشن**: ان کی گھریلو صنعتوں پر امریکی-چین ٹیرف کے اثرات کو کم کرنے کے لیے نقطہ نظر کو ہم آہنگ کرنا۔
**یہ کیوں اہم ہے**
– **عالمی سپلائی چینز**: طویل ٹیرف نے کاروباروں کو آپریشنز کو دوبارہ ترتیب دینے پر مجبور کیا ہے، جس سے صارفین کی لاگت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ امریکہ-برطانیہ کا مربوط موقف آٹوموٹیو اور ٹیک جیسے اہم شعبوں پر دباؤ کو کم کر سکتا ہے۔
– **سفارتی فائدہ**: متحد مغربی تجارتی پالیسیاں چین کے ساتھ مذاکرات کو مضبوط بنا سکتی ہیں، اگرچہ مزید کشیدگی کے خطرات باقی ہیں۔
– **ملکی سیاست**: امریکہ کے لیے، چینی درآمدات پر انحصار کو کم کرنا دو طرفہ اہداف کے مطابق ہے۔ برطانیہ کے لیے، امریکی تجارتی معاہدے کو حاصل کرنا بریگزٹ سے متعلق معاشی نقصانات کو پورا کرنے کے لیے اہم ہے۔
**ماہرین کے رد عمل**
ماہرین اقتصادیات خبردار کرتے ہیں کہ اگرچہ اتحاد قلیل مدتی ریلیف پیش کر سکتے ہیں، طویل مدتی حل کے لیے کثیر جہتی تعاون کی ضرورت ہے۔ تجارتی پالیسی کے تجزیہ کار ڈاکٹر ایملی ہیرس نے نوٹ کیا، “یکطرفہ محصولات ایک دو ٹوک آلہ ہیں۔ اتحادیوں کے درمیان بات چیت مثبت ہے، لیکن املاک دانش کی چوری اور مارکیٹ تک رسائی جیسے نظاماتی مسائل کو حل کرنا وسیع اتفاق رائے کا مطالبہ کرتا ہے۔”
**آگے دیکھ رہے ہیں**
ٹرمپ-کارنی کال ٹرمپ کی صدارت کے بعد بھی تجارتی سفارت کاری کی پائیدار مطابقت کو اجاگر کرتی ہے۔ جیسا کہ 2024 کے امریکی انتخابات کا آغاز ہو رہا ہے، تجارتی پالیسی ایک متنازعہ مسئلہ رہے گی، امیدواروں کے ممکنہ طور پر معاشی قوم پرستی بمقابلہ عالمی تعاون کے گرد اپنی حکمت عملی وضع کرنے کا امکان ہے۔ برطانیہ کے لیے، امریکہ اور یورپی یونین کے ساتھ تعلقات کو متوازن کرنا — چین کے تعلقات کو سنبھالتے ہوئے — ایک نازک عمل ہوگا۔
**نتیجہ**
اگرچہ ابہام اس مکالمے کی تفصیلات کو گھیرے ہوئے ہیں، لیکن اس کی علامت واضح ہے: تجارتی جنگوں سے نئی شکل دینے والی دنیا میں، قومیں اسٹریٹجک شراکت داری قائم کرنے پر مجبور ہیں۔ آیا اس طرح کی کوششیں ٹیرف کے اثرات کو کم کر سکتی ہیں — یا مزید ٹکڑے ٹکڑے ہونے کا خطرہ — دیکھنا باقی ہے۔
*وضاحت: “کارنی” کا حوالہ غلطی ہو سکتا ہے۔ مارک کارنی (بینک آف انگلینڈ کے سابق گورنر) برطانیہ کے موجودہ پالیسی ساز نہیں ہیں۔ تجارتی مذاکرات کے تناظر میں، کال میں ممکنہ طور پر برطانیہ کی ایک سینئر سیاسی شخصیت شامل تھی۔*